کــافـر کے ساتھ اپنی اِس جائز جنگ میں، ہندی مسلمانوں کو کھونے سے حتى الوسع گریز کیجیے
|
:عنوان |
|
 |
|
|
|
کافر کے ساتھ اپنی اِس جائز جنگ میں، ہندی مسلمانوں کو کھونے سے حتى الوسع گریز کیجیےحامد کمال الدینجنگ صرف فوجوں کی نہیں ہوتی۔ قومیں اس میں برابر کی شریک ہوتی ہیں۔ یہاں تو کرکٹ میچ صرف ٹیم کے نہیں پوری پوری قوم کے ہوتے ہیں، جنگ تو پھر جنگ ہے! یوں مارو یوں نہ مارو، اُدھر وار کرو اِدھر نہ کرو، یہ کرو اور وہ نہ کرو، ذرا زور سے رکھو، دیہات کی بیٹھکوں اور حجام کی دکانوں سے لے کر انٹرنیٹ کی سوشل چوپالوں تک… پالیسی اور سٹرٹیجی ایسی ہر ہر شے اپنی اپنی فوج کو باقاعدہ سمجھائی جا رہی ہوتی ہے۔ جنگ ہو اور جذبات عروج پر نہ ہوں، کیسے ممکن ہے! جنگ میں "عوام" کے شریک ہونے کا دراصل یہ ایک اظہار ہوتا ہے؛ جو کہ فطری ہے۔ اس میں کچھ غلط نہیں۔ پھر بھی برِ عظیم میں اسلام کے بکھرے ہوئے شیرازے سے متعلق کچھ نزاکتیں جن کی تیس اور چالیس کے عشرے میں ہی کچھ گہری اور دُوررَس بنیادیں پڑ چکی ہیں اور جوکہ ہماری بہت سی نارسائیوں کی ایک مسلسل اَن کہی روداد ہیں، ہمارے داعیوں اور رائےسازوں کے پیش نظر رہنی چاہییں۔ ہر دو طرف کے "جیالے" ان باتوں کو بالکل نہیں سمجھیں گے یا حتى کہ ان کا مذاق بھی اڑائیں گے یا ہو سکتا ہے فتوىٰ بازی پر اتر آئیں، مجھے پورا اندازہ ہے۔ البتہ میرا روئےسخن ان عقول کی جانب ہے جو "الذین یستمعون القول فیتبعون أحسنہ" کے زمرے میں آئیں۔ یہ البتہ وہ عقول ہیں جن کی پیدائش ’سن اُنیس سو کچھ‘ میں نہیں ہوئی، بلکہ یہ اس خطے میں اسلام کی ایک ہزار سالہ تاریخ کو اپنے وجود اور اپنی قومی عمر کا لا ینفک حصہ جانتی ہیں اور مستقبل میں بھی صبر اور حوصلے کے ساتھ ان شاء اللہ بہت آگے تک دیکھ سکتی ہیں۔ مسئلے کی نظریاتی جہتیں بیان کرنے کا یہ وقت نہیں۔ ہم "الجماعۃ" پر ایمان رکھنے والوں کےلیے، فی زمانہ مسلم سرزمینوں کی خاطر لڑنا مرنا خالصتاً جہاد ہے اگرچہ فارمیٹ یہاں فی الوقت نیشن سٹیٹ کا کیوں نہ ہو۔ یہاں تک کہ اگر ترکی وغیرہ ایسے کسی ملک میں دستوری طور پر سیکولرزم قائم کیوں نہ ہو، پھر بھی - ایک کــافـر ملک کے ساتھ اس مسلمان قوم کی جنگ ہو جانے کی صورت میں - یہاں کی مسلم سرزمین کا ایک ایک چپہ بچانے کےلیے لڑنا اور یہاں اسلام کا جتنا کچھ بچ گیا ہے کم از اسے چھننے نہ دینا اور اسی کے اندر "دارالاسلام" کا معنىٰ زیادہ سے زیادہ گہرا کرنا جہاد فی سبیل اللہ کا ایک عظیم باب ہے۔ "نظام" اور "دستور" وغیرہ کی بحثیں یہاں سراسر غیر متعلقہ ہیں۔ یہ مسئلہ ہم نے اپنے ایک طویل مضمون "عالم اسلام پر مسلط اس جنگ کو سمجھنے کی ضرورت" میں کسی قدر واضح کر رکھا ہے، گو اُس کا سیاق تھوڑا اور ہے، لیکن پاکستان سمیت کسی بھی مسلم ملک کی کسی کافر قوت کے ساتھ جنگ کے متعلق ایک اصولی پوزیشن جو یہاں کے مسلم باشندوں کو از روئے دین لینی چاہیے ہمارے اُس مضمون سے بہر حال واضح ہو جاتی ہے۔ مسئلہ کے نظریاتی پہلو تو پس آپ میری اُسی تحریر سے دیکھ لیجیے، یہاں مجھے مسئلہ کی کچھ فوری اور واقعاتی جہتوں سے متعلق تھوڑی بات کرنی ہے… مسلم شیرازے کی ان نزاکتوں کے پیش نظر جو پیچھے ذکر ہوئیں… آپ کےلیے مناسب ترین یہ ہو گا کہ کــافـر کے خلاف اِس جنگ میں آپ اپنی مسلم فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں اور ہر ہر انداز میں اس جنگ کے اندر حصہ لیں۔ میدانِ جنگ کے اندر کــافـر کے ہمراہ کوئی وہاں کا مسلمان بھی آپ کے مد مقابل کھڑا ہے تو اسے بھی نشانہ بنائے بغیر چارہ نہیں؛ کیونکہ "فرع" کا حکم "اصل" کے تابع رہتا ہے جبکہ "اصل" یہ جنگ آپ کی کــافـر کے ساتھ ہے۔ البتہ جہاں تک میدانِ جنگ سے ہٹ کر بات ہے، یعنی آپ کی ابلاغی جنگ، جس کا ایک بڑا اکھاڑا اس وقت کا سوشل میڈیا ہے، اور یہ تو وہ محلہ ہے جس کی دیواریں سانجھی نہیں بلکہ دیواریں ہیں ہی نہیں، اور یہ وہ دنیا ہے جس کی کوئی سرحدیں نہیں، آپ کا ہر "کلِک" یہاں آرپار دِکھتا ہے اور آپ کا ہر لفظ تو کیا سب کھسرپھسر یہاں دونوں جانب برابر سنی جاتی ہے… تو یہاں - میرا مشورہ ہے - آپ اپنے نشانے پر صرف کــفــار کو رکھیں؛ مسلمانوں کو اپنے اس ’ابلاغی‘ نشانے پر لینے سے حتى الوسع گریز کریں، اور اُن کے اُن مواقف کو جو وہ کسی وجہ سے اپنے لیے اور اپنی مسلم کمیونٹی کےلیے وہاں پر اختیار کرتی ہیں، اپنی "پاکستانی" ڈکشنری کے ساتھ میچ کرنے سے احتیاط ہی برت لیجیے، ان شاء اللہ آپ کا کچھ نہیں جائے گا، کــافـر کے ساتھ آپ کی جنگ کا مومنٹم بھی بالکل متاثر نہیں ہو گا، ہاں مسلمانوں کے آپس کے گھاؤ کم رکھنے میں تھوڑا فائدہ ہو جائے گا۔ اتنا سا خیال برعظیم کے اِس نصف ارب پر مشتمل مسلم شیرازے کا براہ کرم ضرور کر لیجیے، اللہ آپ کو خوش رکھے اور فتح یاب فرمائے۔ ہندوستان کی نامور مسلم جماعتوں اور شخصیات کو وہاں فی الحال - اور بڑی دیر تک - کیسے سروائو survive کرنا ہے، اور جو کہ اپنے تئیں بیس کروڑ مسلمانوں کا بوجھ اٹھا کر کھڑی ہیں - اپنی اور اپنی قوم کی تمام تر کمزوروں، خرابیوں اور ناتوانیوں کے ساتھ - یہ مسئلہ ایک مدت تک اُنہی پر چھوڑ رکھنا، یا کم از کم بھی اس سے صرفِ نظر کر رکھنا ہو گا اور اس کو اپنے ہاتھ میں لینے اور یہاں بیٹھے ان کو ہدایات جاری کرنے یا اس پر ان کا محاکمہ کرنے سے گریز کرنا ہو گا۔ خصوصاً جبکہ آپ یہاں کے پالیسی ساز بھی نہیں اور کسی احمد شاہ ابدالی یا کسی محمود غزنوی یا کسی محمد بن قاسم والے لشکر کَش اقدامات کے ساتھ وہاں کے مسلمانوں کی مدد کو پہنچ کر اُن کے سب ’قومی‘ عذر ختم کر ڈالنا نہ تو آپ کے اختیار میں ہے اور نہ اِس خطے کی دو نیشن سٹیٹس کے مابین تعلقات کی exact نوعیت آپ سے پوچھ کر طے کی جاتی ہے۔ آپ جو تاحال "بہاریوں" کو نہیں سنبھال سکے جو "بنگلہ دیشی کیمپوں میں" مسلسل فریاد کناں ہیں، اس سے بڑے کسی مسئلے کو تو بالکل نہیں سنبھالنے کے؛ سو کوئی بڑا بول نہ ہی بولیے اور خدا کی خدا پر چھوڑیے۔ لہٰذا اِس دائرہ میں، اور اس سے پھوٹنے والے امور میں، "چُپ" بھی کوئی بُرا آپشن نہیں!!! تو کیا برا ہے کہ بھارتی جارحیت کے خلاف آپ اپنی مسلم افواج کا بھرپور ساتھ دیجیے، البتہ باقی امور سے صرفِ نظر ہی کیے رکھیے۔ پس یہ نزاکتیں جن کا پیچھے ذکر ہوا، آپ کے صرف ادراک کرنے کی ہیں، البتہ ان کو سلجھانا آپ کے دائرہٴ اختیار سے ماورا ہے۔ لہٰذا کوئی ضروری نہیں کہ اس پر آپ اپنے مسلم بھائیوں کے خلاف اپنا کوئی باقاعدہ شرعی کٹہرا لگائیں۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں، ایک بڑی سطح پر یہاں نیشن سٹیٹ ہی کی قاموس بولی جائے گی، جس کی اپنی ایک vocabulary ہے۔ سو اِس حوالہ سے معاملات خلط ملط بھی بہرحال ہیں۔ آپ کے "اسلامی ادوار" والی وہ پوری کی پوری اسلامی لغت فی الحال یہاں انسٹال نہیں ہو سکتی؛ لہٰذا اس سے ایک درجہ میں آپ کو گریز ہی کرنا ہو گا، ورنہ آپ معاملات کو بےطرح الجھا بیٹھیں گے۔ بنابریں…؛ معاملات کو اسلام کے مفاد کی نظر سے دیکھنے پر ہی اکتفاء کیا جائے گا، اور پیچیدہ امور کو انہیں جان سکنے والوں پر چھوڑ رکھا جائے گا۔ کــافـر کو تہس نہس کرنے کے تمام تر جذبہ کے ساتھ ساتھ، جو کہ ایک مبارک جذبہ ہے اور اس کا جاگ اٹھنا ایک غنیمت ہے… اس جنگ کو مسلمان مسلمان کی جنگ نہ بننے دینے میں زیادہ سے زیادہ عقلمندی سے کام لیجیے۔
|
|
|
|
|
|