|
 |
|
|
|
س: بعض لوگ حوالہ دیتے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مکہ چھوڑ کر ہجرت کی راہ اختیار کرلی تھی، اس تلبیس کا کیا جواب ہے ؟ ج: ہجرت - فی اصلہٖ - دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف ہوتی ہے۔ ہجرت کی جس مثال کا سیرت سے آپ نے حوالہ دیا ہے، ابن تیمیہؒ نے صراحت کی ہے کہ نبیﷺ کے وہاں سے ہجرت فرمانے کے وقت مکہ کا یہی سٹیٹس تھا۔ ظاہر ہے ہجرتِ حبشہ کے وقت بھی مکہ کا یہی سٹیٹس تھا، اگرچہ حبشہ دار الاسلام نہ تھا۔ تاہم "جہاں سے" ہجرت کی (حبشہ کے وقت بھی) وہ اُس وقت تک ارضِ کفر ہی تھی۔ البتہ ہجرتِ مدینہ کے کیس میں، نبیﷺ نے صاف ارضِ کفر سے ارضِ اسلام کی طرف ہجرت فرمائی، اور جو کہ ہجرت کی اصل اور ہجرت کا حقیقی معنىٰ ہے۔ البتہ ارضِ جہاد سے ہی "ہجرت" کر آنے کا یہ ایک فلسفہ جو فی زمانہ پیش کیا جا رہا ہے، حد سے بڑھ کر عجیب ہے۔ یہ ایک معلوم بات ہے، ارضِ اسلام پر کافر چڑھ آئے تو وہاں کے لوگوں پر سرزمین اسلام کے ایک ایک چپے کےلیے لڑنا فرض ہوتا ہے۔ اُس وقت وہ ارضِ جہاد ہوتی ہے، جس سے پیچھے ہٹنے کا صاف مطلب سرزمین اسلام کو کافر کے حوالے کر آنا ہے۔ (البتہ جو قطعہٴ زمین تھا ہی نبیﷺ کی ہجرت کے وقت ارضِ کفر، تو اس سے پیچھے ہٹنا "دار الاسلام کے ایک قطعے" کو کافر کے حوالے کرنا نہیں تھا)۔ رہی وہ جو سرزمین اسلام ہے، تو اس پر مسلمان کا حق برقرار رکھنے کےلیے مسلمان کا وہاں پر جما رہنا، اور حسب استطاعت مزاحمت کرتے رہنا، یا مزاحمت کےلیے کسی بھلے وقت اور کسی مناسب سکیم کا انتظار کرنا، کم از کم بھی اس کا یہ سٹیٹس برقرار رکھنا کہ کوئی "ہماری زمین" پر چڑھ آیا ہوا ہے، جس کو اُس سے واگزار کروانا ہمارا شرعی فریضہ تو ہے ہی، ہمارا ایک انسانی حق بھی ہے، بوجوہ ضروری رہتا ہے۔ مسلمانوں کا سرزمینِ اسلام کے کسی ایسے قطعے میں صبر و استقامت کے ساتھ موجود اور برقرار رہنا ان کے حق میں "رباط" کہلائے گا جس کے فضائل احادیث کے اندر کثیر وارد ہوئے ہیں۔ افراد کی سطح پر کسی کے وہاں سے اٹھ آنے کی گنجائش اگر نکالی بھی جائے تو وہ رخصت کے باب سے ہو گی، عزیمت یہی ہو گی کہ وہاں ڈٹے رہیں۔ اب ایسی عزیمت کو اُس صورتحال پر، اور اُس قطعہٴ زمین پر، قیاس کرنا جہاں سے ہجرت کر آنا شریعت نے باقاعدہ فرض کر رکھا تھا، اور جہاں پڑے رہنے والے رہائشیوں کو (سوائے چند عذر والوں کے) قرآن نے صاف پاپی اور "ظالمی أنفسھم" کہا تھا، ایک بہت بڑا قیاس مع الفارق ہے۔ مزید برآں، یہ وہ فتوىٰ ہے جس کے دینے والے کو صہونی سونے میں تول سکتے ہیں۔ خود "قرآن حدیث کی دلیلوں" سے اُن کو کوئی ایسی شے ملے جس سے صہونیوں کی باچھیں کھِل اٹھیں، اور ایک سرزمین جو کئی عشروں سے ان کے حلق کا کانٹا بنی ہوئی ہے پلک جھپکتے میں ان کی ہو جائے کہ "ہنگ لگے نہ پھٹکڑی" صرف قرآن و حدیث کی دلیلوں سے یہ کام ہو جائے، اور قرآن حدیث کی اطاعت تو ظاہر ہے کہ قدسیوں پر فرض ہی ہے، تو یہ ایسا کمال کا کام ہو گا کہ شیاطین عالم بھی اپنی اس خوش قسمتی پر یقین نہ کر سکیں! اس کے باوجود… کریں گے کچھ لوگ "قرآن و حدیث" کی - معاذ اللہ - یہ ترجمانی بھی! چپ تک نہیں رہیں گے اس سے!!!
|
|
|
|
|
|