عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, November 1,2024 | 1446, رَبيع الثاني 28
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2016-07 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
"قوموں" کو لے کر چلنا "تحریکوں" کو لےکر چلنے سے مختلف ہے
:عنوان

چند صد افراد کی ایک جماعت کو شاید یہ لوگ’’سوسائٹی‘‘سمجھتے ہیں اور اسی کےمسائل کو ’’سوسائٹی‘‘کےمسائل! انکو شاید اندازہ بھی نہیں ہے کہ ’’قوم‘‘ کا بوجھ کس بلا کا نام ہے اور وہ کیسا ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور اس کےلیے کس کس جہت سےآپکو پریشان رہنا ہوتا ہے

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں!

"قوموں" کو لے کر چلنا "تحریکوں" کو لےکر چلنے سے مختلف ہے

اداریہ 5

’انقلاب‘ یا ’غلبۂ دین‘ وغیرہ ایسی اپروچ کو لے کر چلنے والے حضرات اکثر ان دو باتوں کا فرق نظر انداز کرتے ہیں:

1.    ایک ہے: ایک ’’تحریک‘‘ کو لے کر چلنا۔ یہ چاہے کتنا ہی مشکل ہو، مگر دوسری بات کے مقابلے پر کچھ بھی نہیں۔

2.    اور دوسرا ہے: ایک ’’قوم‘‘کو لے کر چلنا۔اور وہ بھی ’زوال‘ کے گڑھے میں ایک بار جا گری اور ’غلامی‘ کے پراسیس سے گزر چکی پوری ایک قوم کو۔  یہ تو گویا پہاڑ کو پیٹھ پر لاد کر چلنا ہے۔ اور یہ چیز تو موسیٰ﷣ ایسے اولوالعزم رسولوں کےلیے ایک چیلنج ہوتی ہے؛ اور جوکہ قدم قدم پر آپ﷣ کو بےبس کیے جاتی ہے۔

تاریخِ امت میں... ’’ابتدائےاسلام‘‘ کو اپنے اِن متاخرہ ادوار کی ’’قومی حالت‘‘ کے ساتھ خلط کرنے والے حضرات البتہ ہمیشہ ہی اِن دو باتوں کو خلط کرتے ہیں:

ایک ’قوم‘ کو لے کر چلنا... اور ایک ’تحریک‘ کو لے کر چلنا۔

جبکہ ان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

وہ حضرات بھی جو ’’مصالح و مفاسد کے موزانہ‘‘ والے ایک معروف فقہی قاعدہ کا اکثر مذاق اڑاتے ہیں، ’قوموں‘ کے معاملے کو لے کر چلنے کو معمولی جانتے ہیں۔ حالانکہ یہ وہ مقام ہے جہاں ’تدبیریں‘ اور ’شمشیریں‘ سب جواب دے جاتی ہیں۔

اس فرق کو نظرانداز فرمانے والے اکثر حضرات آج بھی اپنے لیے اس سوال کا جواب دینا آسان پاتے ہیں کہ: جب انگریز نے مسلم ہند پر اپنا قبضہ پوری طرح مستحکم کر لیا، اُس وقت کونسا عمل اختیار کرنا اُس بھنور سے نکل آنے کےلیے مسلمانوں کے حق میں بہترین تھا؟  گویا واقعتاً یہ حضرات ایسے کسی نسخے کی نشاندہی کر سکتے ہیں جسے اختیار کر لینے سے مسلمان اس بلائےعظیم سے نجات پا سکتے تھے:

Р  ایک جانب ’عسکری آپشن‘ کے مؤیدین اپنے دلائل رکھتے ہیں کہ مسلمان انگریز سے لڑ کر بڑے آرام سےآزادی حاصل کر سکتے تھے (اور یہ پنجابی ضرب المثال تو گویا بےمعنیٰ ہے کہ ’’ڈوبا ہی بیچارہ تب جب سانس نہ لے سکا‘‘!)۔

یعنی جو قوم اپنا بہت کچھ پاس رکھتے اور ایک بہترین پوزیشن میں ہوتے ہوئے اپنا ایک کے بعد ایک قلعہ دشمن کو دیتی چلی گئی ہے، اور یہ تمام عرصہ اس کا ’احساسِ زیاں‘ جاگنے کا نام نہیں لیتا، یہاں تک کہ پوری زیر ہو جاتی ہے... اب جب وہ اپنا سب کچھ ہاتھ سے دے چکی اور دشمن کی مکمل محکوم ہو چکی تو وہ آناً فاناً اس ’’پوزیشن‘‘ میں ہو گی کہ لڑ کر دشمن کو شکستِ فاش سے دوچار کردے! اسے ’خواہش‘ تو آپ ضرور کہہ سکتے ہیں اور چند باعزیمت لوگ اس کےلیے قربانیاں دینے میں اپنے آپ کو سچا بھی ثابت کر سکتے ہیں مگر ’’قوم‘‘ بھی اِس راہ میں کچھ ہل جُل کر دے دے، ’اے بساآرزو کہ خاک شدہ‘۔ حق یہ ہے  کہ ’’قوم‘‘ کو ’’تحریک‘‘ میں ڈھالنا تقریباً ناممکنات میں سے ہے۔ اس اتنے بھاری بوجھ (انگریزی اقتدار سے پوری ایک قوم کو رہا کروا کر اس کا کھویا ہوا اقتدار بحال کروا لینا) کو اٹھانے کےلیے آپ کے بڑےبڑے صالحین کو کہیں فرانسیسیوں کا دستِ کرم دیکھنا پڑتا ہے، کہیں جاپان کا، تو کہیں ہٹلر کا، تو کہیں روس کے در پر دستک دینا پڑتی ہے۔ ہر ایک کی اپنی اپنی شرطیں اور اپنے مفادات اور اپنی اپنی اسکیمیں اور چالیں... اور ہر ایک کی اپنی اپنی کمینگی۔  ان سب کے مابین اکثر اوقات آپ ایک ’کارڈ‘ کے طور پر ہی برتے جاتے ہیں؛ ایک ایسا کارڈ جو کسی وقت پھینکنے کا ہوتا ہے تو کسی وقت سنبھال رکھنے  اور ’وقت آنے پر‘ دیکھنے کا (اور دریں اثنا آپ کو خراب ہونے کےلیے چھوڑ رکھنے کا)۔ پھر اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ سب قربانیاں دے لینے کے بعد بھی (عربی ضرب المثال کے مصداق) آپ کسی بارش سے بھاگ کر پرنالے کے نیچے جا کھڑے نہیں ہوں گے؛ یعنی ’متبادل‘ کوئی اس سے بھی بُرا قبضہ کار ثابت نہیں ہوگا۔

Р  دوسری جانب ’سرسید والے آپشن‘ کو برحق اور واجب قرار دینے والے (اور کسی وقت تو کالا پانی کی سزائیں بھگتنے والے صالحین کا مذاق اڑانے تک چلے جانے والے)  اپنے دلائل رکھتے ہیں، گویا کمی ہی اسی بات کی تھی جو انگریز کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جا کر پوری کر لی گئی... اور اس کے نتیجے میں بالآخر قوم نے ’فلاح‘ کی راہ ڈھونڈ لی! یعنی جب بھی کوئی قوم آپ پر چڑھ آئے اور آپ کو سدھانے اور غلامی و ٹیکس کلکٹری کی ٹریننگ کے باقاعدہ کچھ پروگرام جاری کرے تو ان میں داخلے لینے کی تحریک چلا دو اور اُس کے وہ کورس اعلیٰ نمبروں میں پاس کرکے دکھاؤ... اور غلاموں کی گریڈنگ میں اوپر جانے کےلیے اُس کے مقرر کیے ہوئے طریقے کو بہترین انداز میں ’فالو‘ کرو! ’وقت کے تقاضوں‘ کو سمجھنا عین اسی رویّے کا نام ہے! یعنی ایک جسمانی مغلوبیت انجام پا جانے کے بعد ایک باقاعدہ ذہنی و ثقافتی سرنڈر۔ آقا کا اعتماد پانا اس کے بغیر ممکن ہوتا بھی نہیں! بات سچ ہے مگر ہے رسوائی کی۔

غرض ہر دو فریق کو زعم ہے کہ اس صورتحال سے ’نمٹنے‘ کےلیے جو انگریزی اقتدار کی صورت  انیسویں صدی میں مسلمانوں کے سر پر آ پڑی تھی، وہ قوم کو ایک بہترین و کامیاب ترین طریقے کی نشاندہی کر کے دے سکتا تھا!

جبکہ یہ وہ بلا تھی جو بنی اسرائیل کے حوالے سے یوں بیان ہوئی: آلِ فِرْ‌عَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّ‌بِّكُمْ عَظِيمٌ۔

حق یہ ہے کہ اس سوال کا جواب دینا آسان ہی نہیں تھا (انیسویں صدی کا سیناریو)۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ اس سوال کا کوئی جواب ہی مسلمانوں کے پاس نہیں رہ گیا تھا۔  غلامی کی ایک ایسی نوبت کو پہنچ جانے کے بعد مسلمانوں کے پاس کوئی آپشن رہ ہی نہیں گیا تھا۔ دنیا پوری ان کےلیے اندھیر ہو چکی تھی۔ غیرقوم کے قبضے میں آجانے کے بعد __ قومی سطح پر __ آپ کے پاس کوئی آپشن نہیں رہتا، خصوصاً اگر آپ کی پشت پر کوئی اور مضبوط مسلم قوت بھی نہ رہ گئی ہو۔ جتنے ’آپشن‘ اُس وقت نظر آتے ہیں، وہ ایک سے ایک برا ہوتا ہے۔

ہماری اس گفتگو کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمانوں کو اُس وقت (انیسویں صدی کے سیناریو میں) کچھ نہ کرنا چاہئے تھا۔ بس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ رہتے؛ مسلم قیادتوں کو کوئی بھی اسکیم مسلمانوں کو بنا کر نہ دینی چاہئے تھی۔ ظاہر ہے ہم یہ نہیں کہہ رہے۔

 کسی صورتحال کے ساتھ ’معاملہ‘ کرنے کےلیے اور اُس کے اندر ’جو ہو سکتا ہے‘ اُسے انجام دینے کےلیے تو لامحالہ آپ کو کوئی اسکیم بنا کر قوم کو دینا ہوتی ہے خواہ وہ کوئی بدترین سے بدترین صورتحال کیوں نہ ہو۔ اس لحاظ سے مسلم قیادتوں کی ذمہ داری تو (مسلمانوں کی غلامی تو رہی ایک طرف) حالتِ اسیری کے اندر موقوف نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ بنی اسرائیل کی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں، بابل کی اسیری کے دوران بھی ان کو انبیاء کی قیادت میسر کرائی جاتی ہے (اُس وقت کا ایک نبی دانیال بتایا جاتا ہے جس کا بخت نصر کے ساتھ ملاقاتیں کرنا بھی تاریخ میں مذکور ہے)۔ پس ’’راہنمائی‘‘ تو ’’ممکنہ چارہ جوئی‘‘ سے متعلق آپ کو ہر حال میں قوم کو دینا ہوتی ہے۔ ہمارا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ’’انیسویں صدی‘‘ آپ کی تاریخ کا بدترین سیناریو تھا جہاں آپ اپنی اجتماعی زندگی کے بدترین آپشنز کا سامنا کر رہے تھے اور ایک سے ایک بڑھ کر خوفناک گڑھے میں گرتے چلے جا رہے تھے۔ دربدر کی ٹھوکریں جو آپ نے رنجیت سنگھ کے ایام میں کھائیں یہاں تک کہ اس ذلت کا جوا اتار پھینکنے کےلیے بمشکل تمام پورے ہند سے مجاہدین کی جو ایک مٹھی بھر جمعیت مہیا ہو سکی، وہ بالاکوٹ کے میدان میں کھیت ہو کر ہماری امیدوں کا آخری چراغ بھی گل کر گئی۔ اور اس کے بعد بےبسی جو آپ نے انگریز کے دور میں دیکھی اور جس کے آگے آپ کو مشرق تا مغرب کہیں سے مدد کی کوئی امید نہ رہ گئی تھی۔  وہ تو شکر کریں کہ پردۂ غیب سے ایک طرح کی مدد آپہنچی اور چند عشروں کے اندر ہی ’’عالمی جنگوں‘‘ کے دم قدم سے سیناریو بدل گیا اور ’’آزادیوں‘‘ کی ایک نہ واپس ہونے والی لہر چل پڑی، جس کا کریڈٹ یہاں انیسویں اور بیسویں صدی میں اختیار کیے جانے والے کسی بھی ’منہج‘ کو نہیں دیا جا سکتا؛ صرف خدا کی حمد کی جا سکتی ہے جو مسلمانوں کا ولی و کارساز ہے اور انہیں کسی بھی حال میں بےیارومددگار نہیں چھوڑتا۔

میں یہ چاہوں گا کہ اس بات کا کچھ اندازہ ضرور کر لیا جائے کہ یورپ کی کمر توڑ دینے والی عالمی جنگوں اور ان کے بطن سے پھوٹنے والی آزادیوں کا یہ منظرنامہ اگر پردۂ غیب سے ظاہر نہ ہوتا اور ’’انیسویں صدی‘‘ والا وہی منظرنامہ اپنی اُسی سفاکی اور سیاہ ناکی کے ساتھ کوئی ایک ڈیڑھ صدی جاری رہ لیتا تو آج آپ کس پاتال میں ہوتے۔ (جبکہ اللہ کا شکر ہے، آج حال یہ کہ آپ ایک سپر پاور کو شکست دے کر کوئی درجن بھر ملکوں میں اپنی اذان بحال کروا چکے اور دوسری سپرپاور کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں)۔ حضرات!  کسی ’مثالیت‘ اور ’یوٹوپیا‘ میں رہنے کا اگر آپ فیصلہ کر ہی چکے ہیں اور اِس ضد میں اپنا سب کچھ ہاتھ سے دیتے چلے جانے کا ارادہ ہی فرما چکے ہیں تو کوئی آپ کو اس طرف جانے سے کیسے روک سکتا ہے۔ ورنہ اس بات کا ادراک کرنے میں حرج نہیں کہ مسلمانوں کو کوئی نہ کوئی ’’اجتماعی اکائی‘‘ میسر آئی ہونا خواہ وہ کسی بھی قیمت پر ہو، براہِ راست کافروں کے زیرقبضہ ایک ’فرد‘ ہونے کی نسبت کہیں وارے کا ہے۔ اُس میں تو آپ کا کچھ بچتا ہی نہیں ہے، حضرات۔ بیسویں صدی میں ’’آزادیوں‘‘ کے اِس فنامنا سے پہلے، ابھی آپ کے کچھ تھوڑے بہت مصالح سنبھالے گئے اور آپ کے علمی و ثقافتی ورثہ کو کچھ تھوڑا بہت تحفظ اور سرپرستی حاصل رہی تو وہ انگریز کی کاسہ لیس اُن لولہی لنگڑی ریاستوں کے طفیل جہاں کسی درجے میں مسلمانوں کی ایک اجتماعیت قائم تھی، مانند ریاست بہاولپور، ریاست بھوپال اور نظام حیدرآباد وغیرہ۔ تاریخ پڑھیں تو آپ کے علم و فضل کے اکثر لٹےپٹے ’آثار‘ یہیں کا قصد کیا کرتے تھے۔ سو انہی کے دم سے آپ کے کچھ دن نکل گئے۔ ان برائےنام مسلم ریاستوں کو آپ ’بھاگتے چور کی لنگوٹی‘ ہی کہہ لیجئے، بلکہ اس سے بھی کم، لیکن خوابوں، نعروں اور بڑھکوں کی دنیا میں رہنے کی بجائے اگر آپ کسی صاحبِ تحقیق سے کہیں کہ وہ ذرا اس پر آپ کو ایک تحقیق پیش کردیں کہ مسلم مصالح اور اسلامی آثار کے تحفظ میں تاریخی طور پر ریاست بہاولپور، بھوپال اور حیدرآباد وغیرہ کا کیا کردار رہا ہے تو اس کے مطالعہ سے شاید آپ کی آنکھیں کھل جائیں۔ یہی نواب جن کے تعیّش، مفادپرستی اور بےدینی کی حکایتیں بھی آپ بےحساب سنا سکتے ہیں، اور وہ یقیناً سچی ہوں گی، لیکن انہی ’بےدین‘ نوابوں کے دم سے کتنے ’’صالحین‘‘ اور کتنے ’’علماء و فضلاء‘‘ کو سر چھپانے کی جگہ بھی میسر آئی رہی، اور کتنے مواقع پر برصغیر کا بےسہارا مسلمان اور اس کے مفادات کچھ نہ کچھ سہارا بھی پا لیتے رہے، یہ کہانی بھی بہرحال سننے کی ہے۔

آج کے مثالیت پسند افکار جو آپ کو کچھ جذباتی راستوں پر چلانا چاہتے ہیں... آپ ذرا تجزیہ کریں تو ان میں سے کوئی ایک بھی ’’سوسائٹی‘‘ کے ساتھ معاملہ کرنے کی سائنس سے آگاہ نہیں۔  چند صد افراد کی ایک جماعت کو شاید یہ لوگ ’’سوسائٹی‘‘ سمجھتے ہیں اور اسی کے مسائل کو ’’سوسائٹی‘‘ کے مسائل!  ان کو شاید اندازہ بھی نہیں ہے کہ ’’قوم‘‘ کا بوجھ کس بلا کا نام ہے اور وہ کیسا ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور اس کےلیے کس کس جہت سے آپ کو پریشان رہنا ہوتا ہے۔ نیز اس کےلیے کیسےکیسے صبر اور تحمل کی ضرورت ہے اور کیسےکیسے ظالموں کے ساتھ آپ کو بردباری کا معاملہ کرنا ہوتا ہے۔

ہمارے وہ مشائخ جن کی بابت ہمارا گمان ہے اللہ نے انہیں بیک وقت دینِ خالص کی سمجھ اور سماجی حقیقتوں کا فہم دے رکھا ہے، پھر وہ ائمۂ سلف کے کلاسیکل منہج سے بھی نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ فی زمانہ اس کی باقاعدہ تطبیق کرتے ہیں... ہمارے یہ مشائخ مسلم اجتماعیت کی اِن سب اکائیوں کو جو آج ہمیں حاصل ہیں بسا غنیمت جانتے ہیں۔ اِن کو مسلمانوں کے گھر کا درجہ دیتے ہیں، اگرچہ مسلمانوں کے یہ گھر فی الحال کوئی اطمینان بخش نقشہ پیش نہ بھی کر پا رہے ہوں اور اِن کا بہت کچھ اپنی اصل حالت پر باقی نہ بھی رہ گیا ہو۔ ہمارے ان مشائخ کے یہاں بےشک کسی وقت اِن گھروں کو شدید سے شدید تنقید کا محل بھی ٹھہرایا جاتا ہو، یہاں کے مکینوں کو بڑےبڑے زور سے جھنجھوڑا بھی جاتا ہو، اس لحاظ سے کہ یہاں کے کارپردوازں کی دین سے دُوری اور مفادپرستی  یہاں کے ہر دردمند کو مبتلائےتشویش کرتی اور ہر چارہ گر کو دعوتِ اصلاح دیتی ہے اور خود یہاں کے مکینوں کی حالت انہیں خون کے آنسو رُلاتی ہے...  لیکن یہ سب تنقید و سرزنش اس قیمت پر نہیں کہ یہ گھر بیرونی قبضوں اور اندرنی خلفشار کےلیے لقمۂ تر بننے دیے جائیں۔ ہاں ایسے (بیرونی و اندرونی) خدشات کے مقابلے پر یہ (ائمۂ سنت) ہی اِن گھروں کے سب سے بڑے محافظ بن کر سامنے آتے ہیں، خواہ اس کےلیے انہیں کوئی بھی قیمت دینا پڑے۔ بیرون کے (صلیبی/صیہونی/بھارتی) کینہ پروروں کے مقابلے پر بھی یہی قوم کو اٹھاتے اور جگاتے ہیں اور درون کے ففتھ کالمسٹوں (سرخوں/لبرلوں/قادیانیوں/باطنیوں وغیرہ) کی بابت بھی یہی قوم کی آنکھیں کھولنے کا فرض ادا کرتے ہیں۔  ایسی کسی نادانی کا تو سوال ہی نہیں کہ اپنے ہی کسی اقدام سے یہ اپنے اِن گھروں پر باہر کے بھیڑیوں اور اندر کے گِدھوں کا ہاتھ پڑ جانے دیں۔ اور یہ تو آخری حد تک ناقابلِ تصور: کہ باہر کے بھیڑیے اور اندر کے گِدھ ہی یہاں کے بہی خواہ اور رکھوالے نظر آئیں اور یہ خود یہاں کے بدخواہ! اِن علمائے سنت کو خدا نے وہ سمجھ عطا کر رکھی ہے کہ

1.        اِن گھروں کا تحفظ، اور

2.        اِن کے اندر خدا کی شریعت کا قیام

اِن کے ہاں دو ایسے واضح شرعی مطالب ہیں جو کسی بھی وقت آپس میں متصادم نہیں ہوتے بلکہ یہ مسلسل ایک دوسرے کو مکمل اور ایک دوسرے کی خدمت کرتے ہیں۔ جتنی پیش رفت یہ ایک میدان میں کریں اس سے اتنی ہی مدد یہ دوسرے میدان میں پاتے ہیں۔ ہاں اس کےلیے ایک حکمت اور دوراندیشی ضروری ہے؛ اور چیزوں کا فوری فوری جڑتے ہوئے نظر آنا ضروری نہیں۔ بس یہ بصیرت آپ میدان میں لے آئیے اور اس کےلیے مطلوبہ حوصلہ، صبر اور بُعدِنظر پیدا کر لیجئے، ان شاءاللہ یہ ملک آپ کے ہیں۔ بصورتِ دیگر (خاکم بدہن) نہ یہ ملک آپ کے پاس رہنے والے ہیں اور نہ شریعت یہاں آپ کو ملنے والی ہے؛ آپ گھِرگھِرا کر چھوٹےچھوٹے ڈربوں میں قید اُسی ’’انیسویں صدی‘‘ والے سیناریو میں جاپہنچنے والے ہیں جہاں آدمی کے پاس کوئی آپشن ہوتا ہی نہیں؛ جو کرنا ہوتا ہے دشمن نے کرنا ہوتا ہے؛ آپ نے کسی نپولین یا ہٹلر کی راہ دیکھنی ہوتی ہے یا کسی مہدی اور مسیح کےلیے دعائیں۔ (لا قَدَّرَاللہ)۔

باہر آنکھیں کھول کر دیکھئے، دشمن کئی ملکوں میں بڑی کامیابی کے ساتھ آپ کے چھوٹےچھوٹے ٹکڑے کر بھی چکا ہے اور اس عمل کو پورے تسلسل کے ساتھ آگے بڑھاتا جا رہا ہے۔ آپ دیکھ نہیں رہے، وہ اپنی سب چالیں عین اِسی سمت میں تو چلتا جا رہا ہے۔ ابھی تک اس میں رکاوٹ آئی ہے یا آئندہ آنے والی ہے تو کچھ مضبوط سخت جان مسلم ممالک کے دم سے۔ ورنہ آپ دیکھتے، ہر جا آپ کے کتنےکتنے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ البتہ جتنے ملک آپ کے اب تک ٹوٹ بکھر چکے اور نامعلوم ’ملیشیاؤں‘ کے حوالے کرائے جا چکے، وہ یہ اندازہ کرانے کو کافی ہیں کہ دشمن کے عزائم آپ کے اِن ملکوں کی بابت ہیں کیا۔ نیز ان عزائم کو سرے چڑھانے کے ڈھب patterns    اُس کے یہاں کیا ہیں۔

پس ہمارے یہ مشائخ کبھی اس بات کے روادار نہیں ہوتے کہ ایک معاملے کا بڑا نقشہ نظرانداز کر کے اس کے کسی چھوٹے حصے پر ہی نظر مرکوز کر لیں اور وہیں پر کمال کر دینے کی کوشش کریں۔ ’معرکہ‘ جیتنے کی گرمجوشی میں ’’جنگ‘‘ ہار دینے (winning a battle but losing a war)  ایسی نادانی یہ کبھی نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے؛ کوتاہ نظر لوگ اکثر ان سے شاکی رہتے اور عموماً وقت گزر جانے کے بعد ان کے مواقف کی صحت کا اندازہ کرتے ہیں۔

 ******

اس سلسلہ کے گزشتہ مضامین:







اس سلسلہ کا اگلا مضمون:

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز