بھلی بات، ورنہ خاموش
مشکاتِ سنت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا
أَوْ لِيَصْمُتْ۔ (متفق علیہ)
ابو ہریرہ سے روایت، کہا: فرمایا رسول اللہﷺ نے: جو شخص
ایمان رکھنے والا ہے اللہ پر اور یومِ آخرت پر اسے چاہئے بھلی بات بولے ورنہ خاموش
رہے۔
محض زبان کی حرکت، جس کا پتہ تک نہیں چلتا، یہاں دو
عظیم ترین حقیقتوں کے ساتھ جوڑ دی جاتی ہے: اللہ کو ماننا اور آخرت پر یقین ہونا۔
جس کا اثر زبان اور قلم پر آنا لازم ہے۔ اور اس کی حد یہ کہ یہاں سے بھلی باتیں ہی
نشر ہو رہی ہوں؛ اور اگر نشرِ خیر کسی وجہ سے ممکن نہ ہو تو کم از کم یہاں خاموشی
دیکھی جائے۔
غرض ان دو حقیقتوں کو ماننے کا اثر انسان کے انگ انگ پر نظر آتا ہے۔ اِس
حدیث میں ایمان کی وہ جہت بیان ہوئی جس کا تعلق آلۂ زبان سے ہے۔
اللہ پر ایمان جو انسان کی سوچوں، تصورات، اور اہداف کو حسین ترین جہت دیتا
ہے۔ کیسے ممکن ہے پھر یہاں خوب سے خوب تر نشر نہ ہو۔
آخرت پر ایمان، جو خدا کے آگے انسان کی ذمہ داری اور جوابدہی کا عنوان ہے۔
کیسے ممکن ہے پھر یہاں ذمہ دارترین رویے ظاہر نہ ہوں۔
سلف میں سے کسی کا قول ہے: تمہارے منہ سے نکلے الفاظ
قابو کرنے کےلیے فرشتے قلم سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس بات کا اندازہ کر لو تو
کبھی بےتکان نہ بولو۔ اخروی جوابدہی تو بہت عظیم بات ہے، ان فرشتوں کے لکھنے کو صرف کاغذ اگر تمہیں
اپنی جیب سے دینا پڑتا تو بخدا بڑا حساب کا بولتے!