(حديث:152)[1] عن
محمد بن سوقة أن رسول الله عليه السلام قال ما أحدث عبد أخا يواخيه في الله إلا
رفعه الله به درجة فقال رجل من المنافقين في نفسه وما درجة رفعها رجل أو وضعها
فقال رسول الله عليه السلام ليست بدرجة عتبة بيت أمك ولكنها درجة كما بين السماء
إلى الأرض.
رسول
اللہﷺ نے فرمايا:جب كبھى كوئى شخص للہ فى اللہ كسى بھائى سے رشتہ اخوت قائم كرتا
ہے تو اللہ تعالىٰ اس كا ايك درجہ بڑھا دیتا ہے۔ ايك منافق نے يہ سن كراپنے جى ميں
كہا: کیا ہے ایک درجہ جو آدمی کو بڑھا دے یا گھٹا دے!
آپﷺ نے (گويا بھانپ كر) فرمايا: يہ درجہ (step) تيرى ماں كے گھر كى دہليز كا نہيں ہے۔ يہ
ايك درجہ ايسى وسعت پر محيط ہو گا جیسی آسمان اور زمين كے درميان۔
(حديث:153) مذكورہ بالا متن (text) امام
صاحب نے ايك اور سند سے بيان كيا ہے۔
(حديث:154) و قال كان مسلم إذا قدم من سفر قبله عبد
الله بن عمر ويقول شيخ يقبل شيخا.
اور
راوى نے يہ بھى بيان كيا كہ جب مسلم کسی سفر سے لوٹتے تو عبد اللہ بن عمر ان كا
بوسہ ليتے اور فرماتے ايك بزرگ ایک بزرگ کا بوسہ لیتا ہے۔
(حديث:155) أيضا يحدث عن عبد الله بن
عمر عن عاصم بن عبيد الله أن رسول الله عليه السلام أكب على عثمان بن مظعون فقبله
بعد موته وإنهم ليرون الدموع تسيل من عين رسول الله صلى الله عليه وسلم على وجه
عثمان بن مظعون. قال عبد الله بن عمر : حين مات ابن مظعون قال النبي صلى الله عليه
وسلم: هذا فرط هذه الأمة. قال عبد الله إن أبا بكر الصديق دخل على رسول الله عليه
السلام حين توفي وهو مسجي بثوب فكشف عن وجهه ثم قبل بين عينيه ثم قال لا يجمع الله
عليك بؤسا أبدا.
اسى
طرح راوى كہتے ہيں كہ رسول اللہﷺ حضرت عثمان بن مظعون كى (میت) پر جھکے اور اسے
بوسہ دیا۔ حاضرين نے ديكھا كہ حضور كى آنكھ مبارك سے گرنے والے آنسو حضرت عثمان بن
مظعون كے چہرے پر بہے چلے جاتے تھے۔ آپﷺ نے ان كى وفات كے وقت يہ بھى فرمايا يہ
(ميرا صحابى) اس امت كا ہراول ہے۔ نيز فرماتے ہيں كہ حضورﷺ كى وفات پر ابو بكر
صديق آئے۔ آپؐ پر چادر تھى جسے ہٹا كر انہوں نے آپﷺ كى پيشانى مبارك كا بوسہ
ليا اور ساتھ ہى فرمايا آپؐ پر خدا كبھى اور تكليف كو جمع نہيں كرے گا۔
(حديث:156) قال بلغني أن رسول الله
عليه السلام كان يصافح.
حضرت
ابن عمر كہا كرتے تھے كہ ميں اس بات سے خوب مطلع ہوں كہ حضور كا معمول مصافحہ كرنے
كا تھا۔
(حديث:157) وحدثني
أبو شريح عن رجل من المعافر قال: المؤمنون إخوة يقضي بعضهم حاجات بعض فيقضي بعضهم
حاجات بعض قضى الله حاجاتهم.
كہا
كہ معافر خانوادے سے ايك شخص نے ابو شريح سے بيان كيا كہ مومن آپس میں بھائى بھائى
ہيں۔ سب ايك دوسرے كى ضرورت پورى كرنے ميں اپنے آپ كو كھپائے ركھتے ہيں۔ پھر
جب وہ ايك دوسرے كى ضرورتيں پورى كر رہے ہوتے ہيں تو اللہ بھى ان كى ضرورتيں پورى
كرتا چلا جاتا ہے۔
(حديث:158)عن مجاهد
أنه قال إذا تراءى المتحابان في الله فمشى أحدهما إلى صاحبه فأخذ بيده ثم ضحك إليه
تحاتت خطاياهما كما تحات ورق الشجر قال قلت إن هذا ليسير قال لا تقل ذلك فإن الله
يقول لو أنفقت ما في الأرض جميعا ما ألفت بين قلوبهم ولكن الله ألف بينهم إنه عزيز
حكيم
مجاہد
سے روايت كرتے ہيں كہا كہ جب دو دوست للہ فى اللہ ايك دوسرے كو ديكھتے ہيں اور ايك
چل کر دوسرے کے پاس جاتا اور اس کا ہاتھ تھمتا اور اس کےلیے مسکراتا ہے تو
اس عمل سے دونوں كے گناہ ايسے جھڑ جاتے ہيں جيسے خشك پتے درخت سے۔ ميں نے كہا كہ
یہ تو (گناہوں سے خلاصى كا) بڑا آسان نسخہ ہوا۔ فرمايا: یہ مت کہو، اللہ تعالیٰ تو
فرماتا ہے: تم روئے زمين كى سارى دولت بھى خرچ كر ڈالتے تو ان لوگوں كے دل نہ جوڑ
سكتے تھے۔ مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں كے دل جوڑے۔ يقينا وہ بڑا زبر دست اور
دانا ہے۔ (الانفال 63)
(حديث:159) قال رسول الله صلى الله
عليه وسلم يزور الأعلون من الجنة الأسفلين ولا يزور الأسفلون الأعليين إلا من كان
يزور في الله في الدنيا فذلك يزور في الجنة حيث يشاء.
اور فرمايا كہ جنت ميں اعلى درجے والے جنتى كم درجے والے
جنتيوں كے ہاں زيارت کرنے آتے ہیں۔ نیچے والے اوپر والوں کے ہاں نہیں جا سکتے۔
سوائے اس شخص کے جو دنيا ميں خداواسطے کی ملاقات كيا كرتا تھا وہ جنت ميں جہاں
چاہے ملے۔
(حديث:160) عن أبي بكر الصديق قال إن
دعوة الأخ في الله تستجاب
اور
حضرت ابو بكر صديق سے روايت كرتے ہيں كہ خدا كى وجہ سے جو بھائى (اپنے دوست كے
ليے) دعا كرے تو بلا شبہ وہ قبول ہوتى ہے۔
(حديث:161) عن
أبي أمامة يرفعه قال ما من عبد يزور أخاه في الله إلا أكرم ربه
ابو
امامہ سے مرفوع حدیث مروی ہے: جب بھى كوئى بندہ للہ فى اللہ اپنے دوست كى ملاقات
كو جاتا ہے تو گويا وہ اپنے رب كى عزت افزائى كا شرف حاصل كرتا ہے
(حديث:162) عن
شهر بن حوشب أنه كان يدخل مسجد حمص فيرى أهل مجلس كهولا وغلاما أكحل العينين براق
الثنايا يتنازعون التماس الفقه بغير مرى فإذا أشكل عليهم شئ نظروا إلى الغلام فما
قال انتهوا إليه فأعجبني ذلك من شأنهم وألفتهم وسألت عن الغلام فإذا هو معاذ بن
جبل فارتفع أصحابه فقعدت إليه فقلت معاذ بن جبل إني لأحبك لله قال لئن كنت صادقا
لقد سمعت رسول الله عليه السلام يقول إن المتحابين في الله أو جلال الله على منابر
من نور في ظل العرش على يمين الرحمن يوم القيامة
شہر
بن حوشب سے بيان كرتے ہيں كہ وہ (ملك شام كے شہر) حمص كى مسجد ميں داخل ہوتے تو
مجلس میں بڑی عمر کے لوگ دیکھتے اور ايك نوجوان موٹى سياہ آنكھوں اور چمكدار
دانتوں والا۔ وہ لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر دين كا فہم حاصل كرنے کی کوشش کرتے۔
جب کوئی اشکال پیش آتا تو نوجوان كى طرف متوجہ ہوتے۔ وہ جو فرماتا کوئی اس سے آگے
نہ بولتا۔
مجھے
ان كى يہ كيفيت بڑى بھائى۔ ميں نے ان سے قربت پيدا كر لى اور ان سے نوجوان كے
متعلق پوچھا تو کیا سنتا ہوں یہ معاذ بن جبل ہیں!
پھر
لوگ چل ديے پر ميں ٹكا رہا۔ (موقع پا كر) ميں نے كہہ ہى ديا معاذ بن جبل بخدا ميں
آپ سے للہ فى اللہ محبت كرتا ہوں!
فرمانے
لگے سنو اگر تم سچے ہو تو پھر میں نے رسول اللہ سے سن رکھا ہے، آپﷺ فرما رہے
تھے:بلا شبہ جو لوگ خالص خدا كے واسطے يا فرمایا خدا كے جلال كے واسطے ايك دوسرے
كو چاہتے ہوں گے روز قيامت وہ رحمان كى داہنى جانب عرش كے سائے ميں نور كى مسندوں
پر براجمان ہوں گے۔
(حديث:163) مذكورہ
بالا متن (text) امام صاحب نے ايك اور سند سے بيان كيا ہے۔
(حديث:164) عن
كعب قال رُبَّ قائم مشكور له ورب نائم مغفور له وذلك أن الرجلين يتحابان في الله
فقام أحدهما يصلى فرد الله صلاته ودعاه فلم يرد عليه من دعائه شيئا فذكر أخاه في
دعائه من الليل فقال يا رب أخي فلان اغفر له فغفر له وهو نائم قال كعب إن
المتحابين في الله على عمد من ياقوت أحمر على رأس العمود ألف بيت مشرفين على أهل
الجنة مكتوب في جباههم هؤلاء المتحابون في الله إذا اطلع أحدهم ملأ حسنة أهل الجنة
كما تملأ الشمس أهل الأرض تقول أهل الجنة هذا رجل من المتحابين في الله اطلع
ينظرون إلى وجهه مثل القمر ليلة البدر
كعب
احبار سے نقل ہے: کچھ راتوں کو تہجدیں پڑھنے والے قابل قدر ہوتے ہیں۔
کچھ راتوں کو سوئے رہنے والے لائقِ بخشش ہوتے ہیں۔ (يہ اس طرح ممكن ہوا) كہ يہ
دونوں ايك دوسرے سے خدا كى رضا كے ليے محبت كرتے ہيں۔ ايك صاحب اٹھے اور نماز كى
نيت باندھ لى خدا نے (دونوں ميں محبت كى وجہ سے) قيام الليل كرنے والے صاحب كى
نماز اور مناجات اس كے ساتھى پر لوٹا دى۔ ہر وہ دعا اور نيكى جو وہ رات كرتا ہے
كوئى بھى وہ رد نہيں فرماتا۔ قيام كرنے والے نے اپنى دعاؤں ميں اپنے ساتھى كو ياد
ركھا اور نام لے كر گڑ گڑايا الہى ميرے پيارے كى مغفرت فرما! دوسرا صاحب جو حالت
نيند ميں ہے بخش ديا جاتا ہے۔
حضرت
كعب مزيد فرماتے ہيں: بے شك يوں ہو گا كہ دو دوست جو ايك دوسرے سے خدا كى محبت ميں
آپس ميں پيار محبت كرتے تھے وہ لال لال تراشيدہ ياقوتى برج میں ہوں گی۔ ہر برج پر
ايك ہزار استراحت كدے جن ميں سے جھانكتے ہوئے وہ جنت كے مكينوں كا نظارہ كيا كريں
گے۔ ان كى چنديا پر عبارت لكھى ہو گى:يہ حضرات خدا كى خوشنودى كے ليے آپس ميں
دوستى ركھتے تھے۔
جب كبھى ان ميں سے كوئى روزن سے جھانكا كرے گا تو ان كے حسن كى شادابى سے نكلنے
والى شعاعيں جنتىيوں كو ايسے روشن كر ديں گى جيسے دنيا سورج سے منور ہوتى ہے۔ تب
جنتى پكار اٹھيں گے كسى اہل وفا كے جھانكنے سے ہمارا گرد و پيش بقعہ نور بنا۔ وہ
نظريں اٹھائيں گے اور اس كے چہرے كو ايسے اشتياق سے تاكتے ہوں گے جيسے چودھويں كے
چاند پر نظريں ٹك جاتى ہيں۔
(جاری
ہے)
[1] مشکاۃ
(حدیث کے سیکشن) میں اس شمارہ سے امام عبداللہ بن وھب کی الجامع سے باب الإخاء
پیش کیا جا رہا ہے۔ کتاب کا تعارف علیحدہ مضمون میں اسی شمارہ کے اندر شامل ہے۔