چنانچہ ’’الجماعۃ‘‘ سے ہماری مراد ہوتی ہے:
مسلمانوں کی وہ مجتمع حالت جس میں: وہ کافر
ملکوں، ملتوں، تہذیبوں اور اجتماعیتوں سے الگ تھلگ وہ سماجی و سیاسی اکائی ہوتے
ہیں؛ جس میں دین اسلام اپنا عملی ظہور کرتا ہے۔
ابن حجرؒ کہتے ہیں: وَالْمُرَادُ بِالْجَمَاعَةِ
جَمَاعَةُ الْمُسْلِمِينَ ’’الجماعۃ
سے مراد ہوتی ہے جماعۃ المسلمین‘‘ (فتح الباری ج2 ص 202)۔ آگے چل کر کہتے ہیں: ’’اِس
معنیٰ میں ’’الجماعۃ‘‘ سے نکلنے کا مطلب ہوگا مرتد ہونا‘‘۔ (حدیث: التاركُ لدينه، المفارق
الجماعة)۔
وجہ یہ کہ ’’الجماعۃ‘‘ کوئی
جغرافیائی قوم نہیں بلکہ ایک نظریاتی (ایک خاص عقیدہ سے وجود میں آنے والی) قوم
ہے۔ پس جو حیثیت دوسری قوموں کے ہاں جغرافیائی حدوں کو حاصل ہوتی ہے یہاں
وہ حیثیت ایمان کو حاصل ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ ’’مرتد ہوجانے‘‘ ایسی ایک ہی حقیقت کو حدیث
میں دو جہتوں سے بیان کیوں کیا گیا: اسے ’’التاركُ لدينهٖ‘‘ کہہ دینے پر اکتفا کیوں نہ کیا، ساتھ میں ‘‘المفارقُ الجماعةَ‘‘ کیوں کہا؟ معلوم ہوا یہاں ایک نہیں دو چیزیں
تھیں جنہیں مرتد چھوڑ گیا ہے: ایک یہ دین اور ایک اس پر قائم
جماعت[i]؛ دونوں
لازم و ملزوم۔ پس جتنا کوئی شخص یا گروہ اِس ’’دین‘‘ پر ہے اتنا وہ اِس ’’جماعت‘‘ میں ہے۔ جو مرتد ہوا وہ اس سے بالکل باہر۔ جو بدعت اور فسق میں
پڑا وہ جزوی طور پر جماعت میں شامل اور جزوی طور پر جماعت سے منحرف۔ اور جو خالص سنت
اور اتباع پر ہوا وہ اِس جماعت کا نیوکلئیسnucleus ۔ اس
دین پر ایک مجتمع اکائی بن کر رہنا فرض ہوا اور اِس (فرض) حالت کا نام ہوا ’’جماعت‘‘۔
1.
پس ایک معنیٰ میں ’’جماعت‘‘
وہ فریم ہے جو اِس اکائی کو ایک ہیئت دے گا۔
یہ اس کی آئینی جہت ہوئی، جسے ہم اپنی اصطلاح میں تشریعی جہت
کہیں گے۔
2.
دوسرے معنیٰ میں ’’جماعت‘‘
ایک وجود ہے جو بذاتِ خود ایک وحدت اور جتھہ بندی سے عبارت ہے۔
3.
تیسرے معنیٰ میں ’’جماعت‘‘
ایک نظم کا نام ہوگا۔ یہ اس کی انتظامی جہت ہے۔
ائمۂ سنت سے ہمیں ’’جماعت‘‘
کے یہ تین ہی معانی ملتے ہیں۔ ذیل میں ان کا کچھ بیان کیا جاتا ہے۔
پہلا مفہوم:
الجماعۃ کا مفہوم
اپنی تشریعی جہت کے اعتبار سے، آگے تین ذیلی نقاط میں تقسیم ہوتا ہے۔ ایک: حق پر قائم انسانی وحدت۔ دوسرا: صحابہؓ جو اِس فصل (جماعۃ
المسلمین) کا پہلا پُور ہے؛ اور بعد کے پُور اِسی کے مُڈھ سے پھوٹتے رہے۔ تیسرا: اہل
شریعت؛ یعنی امت کی علمی قیادتیں۔ یہاں ان تینوں ذیلی مفہومات کی کچھ وضاحت کی
جاتی ہے:
1۔ ’’الجماعۃ‘‘ سے مراد: حق پر قائم انسانی
وحدت:
ایک نظریاتی قوم ہونے کے حوالے سے چونکہ یہ روئےزمین کی
منفرد ترین قوم ہے.. لہٰذا یہاں سے ’’الجماعۃ‘‘ کا وہ اہم ترین معنیٰ پھوٹتا ہے،
جس کا تعلق اِس قوم کی شریعت، تہذیب، اَخلاق اور معیارات سے ہے۔ عبداللہ بن مسعود کا قول کہ ’’جماعت
وہ ہے جو حق کے موافق ہو، خواہ تم اس پر اکیلے کیوں نہ رہ گئے ہو‘‘ اِسی باب سے
ہے۔ ائمۂ سنت کے ہاں عموماً اِس کی یہ شرح کی گئی ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو جماعت کے
ہاں ’’آج تک چلتی آئی‘‘ اور جس سے روگردانی اس کے ہاں اصولاً قبول نہیں خواہ بعد
کی نسلیں ایک بڑی تعداد میں اس سے ہٹنے کیوں نہ لگ گئی ہوں۔ یعنی ایک چیز کو اس کی
اصل پر باقی رکھنا اور اس کو بدل کر کچھ سے کچھ ہوجانے سے بچانا۔ وجہ وہی کہ یہ
ایک نظریاتی قوم ہے اور اپنی اُسی قدیمی
حقیقت پر رہنا اِس کی ترجیحات میں سرفہرست۔ چنانچہ یہ
’’الجماعۃ‘‘ کی آئینی جہت ہوئی۔ بدعتی ٹولوں کا ’’الجماعۃ‘‘ سے منحرف ہونا اِسی
باب سے ہے اگرچہ وہ دین اسلام سے مکمل طور پر خارج نہ بھی ہوں۔ یعنی ’’الجماعۃ‘‘
سے مفارقت کی دو صورتیں ہوئیں: ایک مکمل انحراف یعنی ارتداد۔ دوسرا جزوی انحراف
یعنی ایسے نظریاتی یا تہذیبی رویے جو باطل ہیں مگر کفر نہیں ہیں۔ یہاں آپ دیکھتے
ہیں بدعات، اھواء اور نئے نئے نظریات اور ان کے داعیوں اور پیروکاروں کے خلاف
تحریک اٹھانے میں علمائے عقیدہ کے ہاں انتہا کردی جاتی ہے۔ کتاب اللہ کو سمجھنے
کےلیے نئےنئے نسخے ایجاد کرنے والوں پر شدید تشنیع کی جاتی ہے۔ اُس پرانی حقیقت
کو، جو صحابہؓ سے چلی آتی ہے، جاری و ساری رکھنے کےلیے پورا زور صرف کردیا جاتا
ہے۔ کیونکہ ’’الجماعۃ‘‘ سے یہ انحراف مہلک ترین ہے۔ أمَّا بَعدُ فإنَّ خَیرَ الکَلَامِ کَلامُ اللہِ، وَخَیرَ الۡھدیِ ھدیُ
مُحَمَّدﷺ۔ و کُلَّ مُحۡدَثَۃٍ بِدۡعَۃٌ، وَکُلَّ بِدۡعَۃٍ ضَلَالَۃٌ،
وَالضَّلَالَۃُ فِی النَّار اِس ’’الجماعۃ‘‘ کے دستور کی وہ عظیم شق ہے جس کو بآوازِبلند
دہرائے بغیر اِس کے ’’الجمعۃ‘‘ کا کوئی خطبہ مکمل نہیں ہوتا۔
پس یہ وہ انسانی جماعت ہے جو قیامت تک، ایک خاص ڈھب پر جینا
اپنا دستور مانتی اور اس میں کوئی ’’نیا رخ‘‘ آ جانے کو اپنے حق میں ہلاکت جانتی
ہے۔ آسمانی عمل پر مامور ایک انسانی جماعت؛ کہ خود نوعِ انسانی کی بقا اِسی سے وابستہ ہے۔ تاہم
انسان ہونے کے ناطے؛ یہ ’’نئےنئے رخ‘‘ اِس کے ہاں بھی آئیں گے ضرور، جوکہ
افتراق کا موجب ہے؛ اور افتراق ہلاکت۔ چنانچہ اِس کی وہ حالت ہی جو ایک بدعت یا ایک افتراق کے آجانے سے پہلے تھی، اِس کی اصل حالت قرار پائی؛ یعنی پرانے دستور پر ہونا۔
اِس کا اجتماع جس چیز پر ہوا تھا وہی اِس کی طبعی حالت ہے۔ پس جہاں کوئی
دھڑا ’’سنت‘‘ سے ہٹا وہاں وہ ’’الجماعۃ‘‘ نہ رہا؛ جبکہ باقی ماندہ لوگ
’’الجماعۃ‘‘۔ اور یہ ’’الجماعۃ سے وابستگی‘‘ کے قوی ترین معانی میں سے ایک ٹھہرا۔
’’جماعت‘‘ کے اِس مفہوم پر ہمارے ہاں اتنا زور کیوں دیا گیا؟
مگر ’’اسلام‘‘ چونکہ آسمان سے اتری ہوئی ایک ثابت معیَّن
حقیقت ہے؛ لہٰذا یہاں ’’ابتداع‘‘ innovation کے راستوں پر پہرے بٹھا دیے جاتے ہیں۔ پس یہ دنیا کی واحد قوم ہے جس
کا اصل مسئلہ اپنی وہ ’’قدیمی ساخت‘‘ برقرار رکھنا ہے۔ ایک ایسی قوم جو یہاں ’’زندگی گزارنے‘‘ نہیں آئی۔
’’زندگی‘‘ کےلیے اِس کو بہشت دی گئی ہے؛ یہاں البتہ یہ کسی مقصد سے آئی ہے
اور یہ مقصد پورا کر کے ہی اِس کو وہ بہشت ملنے والی ہے۔ پس یہ ’’آسمانی
جماعت ہونا‘‘ اِس کو منفرد کر دیتا ہے۔
جہاں دوسری قوموں کا سب سے بڑا مسئلہ ’’ہونا‘‘ ہے، جس کے بعد اُنہیں
خاک میں مل کر خاک ہوجانا ہے.. وہاں قومِ رسولِ ہاشمیؐ کا سب
سے بڑا مسئلہ اپنی ایک معیَّن ساخت رکھنا ہے، جس کی
بدولت یہ نعمتِ خُلد کی امیدوار ہوتی ہے۔ یہ وجہ ہے کہ دوسری انسانی جماعتوں کا
’ہونا‘ ہی اُن کےلیے سب کچھ ہے؛ جہاں حوادث کے تھپیڑے انہیں ’ساخت‘ دیتے چلے جاتے
ہیں۔ جبکہ اِدھر آسمانی نصوص کی ساخت کردہ ایک جماعت؛ جو
زمانے کی ’’ساخت‘‘ کرتی ہے۔ کُنۡتُمۡ خَیرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ
لِلنَّاسِ۔ یہ وجہ ہے کہ اِس
کے ہاں سب سے بڑا طعنہ ’’آسمانی ہدایت‘‘ سے ہٹ کر کہیں سے ہدایت لینا ہے؛ کیونکہ
اِس کی ساری جان اُسی ایک چیز میں ہے۔ چونکہ دوسری قوموں کو ایسی کوئی صورت ہی
درپیش نہیں، اور نہ یہ اُن کی شان ہو سکتی ہے؛ لہٰذا ’’الجماعۃ‘‘ کا یہ مفہوم خاص
اِسی کے ہاں پایا جاتا ہے۔ کتبِ عقیدہ عَلَیکُمۡ بِالۡجَمَاعَۃ کا سب سے قوی مفہوم یہی بیان کرتی ہیں۔
2۔ ’’الجماعۃ‘‘ سے مراد: صحابہؓ
اِسی سے متصل؛ الجماعۃ کا ایک مفہوم: ’’اصحابِ رسول اللہ‘‘
ہے۔ یعنی اسلامی فصل کا وہ پہلا پور جس سے یہ روئےزمین پر ایک تسلسل کی شکل اختیار کر
گئی۔ یا وہ پیمانہ جسے سامنے رکھ کر یہاں ہر نسل کو
اپنی جہت درست کرنا ہوتی ہے۔ پس پچھلے بند کے تحت اگر کچھ مجرد abstract معیارات آئے تو اِس بند کے تحت ایک ٹھوس concrete معیار آگیا۔ امام شاطبیؒ نے کتاب الاعتصام (ج 3 ص 212) میں ’’الجماعۃ‘‘ کا تیسرا مطلب یہی
بیان کیا ہے اور اِس قول کو بطورِ خاص عمر بن عبدالعزیز سے منسوب کیا۔ اِسی
معنیٰ کے تحت شاطبیؒ مَا أنَا عَلَیہِ وَأصۡحَابِی کی تفسیر کرتے ہیں: مَا أنَا عَلَیہِ: یعنی ’’السنۃ‘‘۔ وَأصۡحَابِی: یعنی ’’الجماعۃ‘‘۔ اور یہاں سے بنا ’’اھل السنۃ
والجماعۃ‘‘۔ یعنی وہ لوگ جو اتباع کرتے ہیں رسول اللہﷺ کی (السنۃ)۔ اور اس اتباع کا معیار اور نمونہ مانتے ہیں صحابہؓ (الجماعۃ) کو۔ اور اِنہی دو بنیادوں ’’السنۃ والجماعۃ‘‘ پر اپنی پوری اجتماعیت استوار رکھتے ہیں۔
غرض وہ پوری ایک نسل جس نے سب سے پہلے دنیا میں ’’الجماعۃ‘‘
ہو کر دکھایا؛ اور وہ بھی براہِ راست آسمانی راہنمائی کے تحت؛ پھر اِس پر آسمان سے باقاعدہ سند پائی؛ اور اپنے بعد قیامت تک آنے والوں کےلیے امام مقرر ہوئی... وہ
زمین کی اِس سب سے نظریاتی قوم کے ہاں ایک خصوصی معنیٰ میں ’’الجماعۃ‘‘ مانی جاتی
ہے؛ جس کے علمی دستور کی پابندی لازم ہے۔
3۔ ’’الجماعۃ‘‘ سے مراد: علمائے حل و عقد
اسی سے متصل؛ الجماعۃ کا ایک مفہوم مسلمانوں کی امامت کرانے
والی ہستیاں ہیں۔ یہ ’’اولی الامر‘‘ کے تحت بھی بیان ہوئیں۔ کہیں ان کو اہل حل و عقد کہا جاتا ہے اور کہیں علماء و فقہاء۔ غرض امت کا سرکردہ ہدایت یافتہ
طبقہ؛ خواہ یہ علمی و نظریاتی پہلوؤں سے مسلمانوں کی کشتی کے کھیون ہار ہوں (جوکہ
اہم تر ہے) اور خواہ سیاسی و سماجی وعسکری پہلوؤں سے۔ امت ان کے تابع ہے۔ ’’لزومِ
جماعت‘‘ پر بخاری کے ایک باب کا عنوان پیچھے ہم دیکھ آئے؛ جس میں وہ الجماعۃ کی
تفسیر ’’اھل العلم‘‘ سے کرتے ہیں۔ اس کی شرح میں ابن
حجرؒ کہتے ہیں:
ترمذیؒ حدیث یَدُ اللّٰہِ مَعَ الۡجَمَاعَۃ (رقم
2167) دینے
کے بعد کہتے ہیں:
الجماعۃ کے پہلے مفہوم پر یہ جو تین
بند گزرے، ان پر ابن حبانؒ کی ایک جامع تقریر:
خلاصہ یہ کہ: ’’سنت‘‘ (اللہ و رسولؐ کی اطاعت)
اور ’’جماعت‘‘ (صحابہؓ اور ان کا دستور) اور اس کے ماہرین ( فقہاء و مدبرین) وغیرہ
یہاں ’’جماعت‘‘ کے معانی ہی کے اندر گوندھ دیے گئے۔ پس عام قوموں کے برعکس؛ اِس
’’الجماعۃ‘‘ کا نظریاتی وجود اس کے سیاسی
وجود پر ہمیشہ فوقیت رکھے گا۔ اِس کے عقائدی پیراڈائم کو ہر چیز پر برتری
حاصل رہے گی۔ روئےزمین کی کسی اور جماعت کو ایسا کوئی معاملہ ہی درپیش نہیں۔
حتیٰ کہ اِس امت کے اہل بدعت کا یہ مسئلہ نہیں۔ یہ ترجیح اپنی واضح ترین صورت میں
صرف اِس امت کے ’’اہلِ سنت و جماعت‘‘ کے ہاں پائی جائے گی۔ اِس قاعدہ کا بہت بڑا
اثر ’’احکامِ ضرورت‘‘ لاگو کرنے کے وقت سامنے آئے گا۔
دوسرا مفہوم:
خود لفظِ ’’جماعۃ‘‘ کا مطلب ہے: اجتماع۔ یعنی ایک ہونا۔
اکٹھ۔ یکجہتی۔ ہم آہنگی۔
ابن تیمیہ ’’عقیدہ واسطیہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
1۔ ’’جماعت‘‘ کا یہ معنیٰ، سماجی جہت سے:
2۔ رشتۂ دینی کو ہر حال میں نبھانا، اہل ایمان
کے ساتھ موالات قائم رکھنا:
3۔ ’’جماعت‘‘ کا یہی معنیٰ، فقہی تنوع کی جہت سے:
4۔ ’’جماعت‘‘ کا یہی معنیٰ نیشنلزم اور عصبیتوں کو رد کرنے کی جہت سے:
اِس دوسرے مفہوم کا لب لباب:
تیسرا مفہوم:
[i] حدیث کے الفاظ
یوں ہیں:
لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ...
إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: الثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ،
وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ (متفق علیہ،
واللفظ لمسلم، رقم 1676)
مسلمان آدمی...
کا خون حرام ہے، سوائے تین گناہوں سے: شادی شدہ زانی، جان کے بدلے جان، اور وہ جو
اپنے دین کا تارک اور جماعت کا مفارق ہوگیا ہو۔
سوال یہ ہے کہ
اگر اِن کا صحیح ’شرعی‘ سٹیٹس بکھرے پتنگے ہونا ہی تھا تو اِنہیں
چھوڑ جانے والے کو ’’مفارقِ جماعت‘‘ کیوں کہا گیا؟ اس کےلیے تو، مرتد ہوجانے کی
صورت میں، تارکِ دین (’مذہب‘ چھوڑ جانے والا) کہہ دینا بہت کافی تھا! معلوم ہوا،
یہاں کوئی چیز تھی جس کا نام ’’مسلمانوں کی جماعت‘‘ ہے، اور جس کو ’’لازم پکڑ
رکھنے‘‘ کی شریعت میں جگہ جگہ تاکیدیں ہیں؛ اور اتنی زیادہ نصوص کہ ’’الجماعۃ‘‘ کا
پورا ایک مفہوم ابھر کر سامنے آتا ہے۔
[ii] حدیث کا متن یوں ہے:
قُلْتُ: فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الخَيْرِ
مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ، دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ
جَهَنَّمَ، مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ،
صِفْهُمْ لَنَا؟ فَقَالَ: هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا، وَيَتَكَلَّمُونَ
بِأَلْسِنَتِنَا قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟ قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ المُسْلِمِينَ
وَإِمَامَهُمْ، قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلاَ إِمَامٌ؟ قَالَ: فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الفِرَقَ كُلَّهَا، وَلَوْ
أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ، حَتَّى يُدْرِكَكَ المَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِك (متفق علیہ۔ بخاری رقم 3606،
مسلم رقم 1847)
میں نے عرض کی: تو کیا اُس خیر کے بعد کوئی شر ہے؟
آپﷺ نے فرمایا: ہاں۔ دوزخ کے دروازوں پر آوازیں لگانے والے، جس نے ان کی مانی وہ
اُن کے ہاتھوں دوزخ میں جا پڑے گا۔ میں نے عرض کی: ہمیں ان کی کچھ نشانی بیان فرما
دیجئے۔ کہا: وہ ہماری چمڑی سے ہوں گے، ہماری زبان بولتے ہوں گے۔ میں نے عرض کی: تو
آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں اگر میں وہ وقت پالوں؟ فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور ان
کے امام سے وابستہ رہنا۔ میں نے عرض کی: تو اگر مسلمانوں کی جماعت اور ان کا امام
نہ ہو؟ فرمایا: تو پھر ان سبب ٹولوں سے ضرور دور رہنا خواہ تمہیں درخت کی جڑیں
کیوں نہ چبانی پڑیں یہاں تک کہ اسی حال میں تمہیں موت آجائے۔