جاوید
غامدی اور ابن عبد البر کا حوالہ
جس کا
کام اُسی کو ساجھے!
احمد شامل
دلچسپ! ویڈیو (احمد شامل کے مضمون میں درج ) دیکھنے سے تعلق
رکھتا ہے!
غامدی صاحب کیا ضرورت تھی ابن عبد البر کا حوالہ دینے کی؟!
محترم! آپ ’امام‘ امین احسن اصلاحی کے حوالوں تک ہی رہا کریں۔ اوپر جانا آپ کے بس
کی بات نہیں۔ اتنی تلاش و جستجو کے بعد آپ کو آدھا جملہ ائمۂ سنت کے ہاں اپنے
مطلب کا ملا اور آپ نے ’’الکافۃ عن الکافۃ‘‘ کا لفظ دکھانے کے شوق میں ابن عبد البر
کا حوالہ دے ڈالا۔ مگر یہ نہیں دیکھا کہ ابن عبد البر تو عین اسی عبارت میں
’’سنت‘‘ کی ایک نہیں دو قسمیں بتا کر آپ کے کیس کو غلط ثابت کر رہے ہیں!!!
اہل سنت بھی یہ کب کہتے ہیں کہ ’’متواتر‘‘ حدیث سنت کی
اعلیٰ ترین قسم نہیں؟ اصل چیز تو بھائی آپ کے دکھانے کی یہ تھی کہ ابن عبد البر
’’سنت‘‘ کو ’’الکافۃ عن الکافۃ‘‘ میں محصور کردیتے۔۔
مگر ھیھات!!! وہ تو سنت کی دوسری قسم بھی ساتھ ہی بتا رہے ہیں!!! مسئلہ تو ’’حصر‘‘ میں ہے برادرم، آپ نے ’’ذکر‘‘
دکھا کر ہی مخالفین کو چت کر دیا!!! اپنے سامعین کو آپ اتنا بےسمجھ کیوں خیال کرتے
ہیں؟
ابن عبد البر ’’سنت‘‘ ہی کو باقاعدہ طور پر دو
قسموں میں تقسیم کرتے ہیں۔ متواتر اور آحاد۔ غامدی صاحب کی نقل کردہ
عبارت پڑھ لیجئے؛ یہاں آحاد کےلیے بھی ابن عبد البر باقاعدہ طور پر ’’سنت‘‘ کا لفظ
بولتے ہیں۔ جوکہ اتفاقاً اِن صاحب کی زبان سے بھی نکل گیا ہے (ویڈیو): والضرب الثاني من السنة أخبار
الآحاد ’’سنت کی دوسری قسم
اخبارِ آحاد ہے!!!
ابن عبد البر کی اس عبارت نے تو ان صاحب کا وہ پورا کیس
ختم کر دیا جو یہ ’’سنت‘‘ کو تواتر اور اجماع میں محصورکرنے کی خاطر
بیان کرتے ہیں! آخر اخبارِ آحاد کو ’’سنت‘‘ کی تعریف سے خارج کرنے کے
سوا غامدی کا کیس ہے کیا؟ غامدی کا تو کیس ہی یہ ہے کہ ’’سنت‘‘
ایک ہی طرح کی ہے۔ جبکہ ابن عبد البر بیان ہی یہ کر رہے ہیں کہ
’’سنت‘‘ دو طرح کی ہوتی ہے! یہ فرماتے ہیں عبد البر نے میرا کیس ثابت کردیا کہ ’’سنت‘‘
کس چیز کو کہتے ہیں، ماشاء اللہ!!!
یہ ایسا ہی ہے کہ پرانے زمانے کا کوئی شخص یہ بیان کرے کہ
(( ’’کرنسی‘‘ دو طرح کی ہوتی ہے: ایک دینار جو سونے کی ہوتی ہے اور بہت قیمتی ہے۔
دوسری درہم جو چاندی کی ہوتی ہے اور قیمت میں کم ہے))۔ اور کوئی ’محقق‘ اس کی کتاب
کھول کر اور عبارت پڑھ کر ’’ثابت‘‘ کرے: دیکھا یہ وہ بات ہے جو میں تمہیں ہمیشہ
بتایا کرتا تھا کہ ’’کرنسی‘‘ ایک ہی قسم کی ہوتی ہے اور وہ دینار ہے؛ درہم
’’کرنسی‘‘ کی تعریف میں نہیں آتا!
سچ کہا ابن تیمیہ نے: اہل بدعت جہاں سے اپنا مذہب ثابت کر
رہے ہوتے ہیں وہیں سے ان کا رد ہو رہا ہوتا ہے! (ادارتی نوٹ)
گزشتہ برس غامدی گروپ نے
ایک ویڈیو شائع کیا جس کا عنوان تھا "انکار حدیث اور جاوید غامدی۔" در
حقیقت یہ ویڈیو ایک انٹرویو تھا جس میں غامدی صاحب نے حدیث و سنت کے بارے میں اپنا موقف بیان کیا۔ اس انٹرویو میں غامدی صاحب
نے حافظ ابن عبد البر کی ایک عبارت کے ذریعے سنت کے ماخذ کے بارے میں اپنے موقف کی
وضاحت کی کہ سنت کا ماخذ محض تواتر ہے۔
غامدی صاحب کے الفاظ یہ تھے:
مثال
کے طور پر میں آپ سے عرض کرتا ہوں سنت کے بارے میں یہ ابن عبد البر ہیں ۔ انھوں
نے سنت کے باب میں کیا لکھا ہے میں آپ کو سنا تا ہوں پھر آپ مجھے بتائیے کے اس
میں جو سوال آپ مجھ سے کر رہے ہیں پہلے ان بزرگوں سے کرنا چاہیے۔ وہ یہ کہتے ہیں
کے :
وأما
أصول العلم فالكتاب والسنة
یعنی
علم کے اصول کیا ہیں۔ دین کا علم زیر بحث ہے۔ کتاب اور سنت۔
وتنقسم السنة قسمين
اور
سنت پھر دو قسموں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ سنیئے ذرا آپ۔
أحدهما تنقله الكافة عن الكافة
ان
میں سے پہلی صورت وہ ہے جس میں مسلمان سب کے سب اس کو منتقل کر رہے ہوتے ہیں ایک نسل
سے دوسری نسل کو۔
فهذا من
الحجج القاطعة للأعذار إذا لم يوجد هنالك خلاف
یعنی
یہ جو سنت ہے یہ قاطع أعذار ہے۔ کسی شخص کو اس کا انکار کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس کی
بنیاد پر ہم، اگر وہ انکار کریگا تو اس کے کفر و ایمان کا فیصلہ کریں گے۔ یہ قطعی
حجت ہے۔ اس لیے کے اس میں کسی خلاف کا امکان نہیں ہوتا۔
تو
جہاں سے یہ لوگ اخذ کرتے ہیں وہیں سے میں
بھی اخذ کرتا ہوں۔ اس معاملے میں میں نے
کوئی دوسرا طریقہ نہیں اختیار کیا۔ آپ یہ دیکھیں اس کے بعد دوسری قسم کہتے ہیں ۔
والضرب
الثاني من السنة أخبار الآحاد
دوسری
صورت وہ ہے جس میں اخبار آحاد سے اخذ کیا
جاتا ہے۔ تو میں یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ جب ابن عبدالبر یہ کہتے
ہیں کے یہ وہ چیز ہے یہ تنقله الكافة عن الكافة ہے۔ یہی الفاظ امام شافعی نے
الرساله میں استعمال کیے ہیں۔ سنت متواترہ
کی تعبیر اسی لیے اختیار کی گئی ہے تو اس سے اہل علم کی کیا مراد ہوتی ہے اس کو وہ
کہاں سے اخذ کرتے ہیں۔ کیوں کہ اخبار آحاد کا ذکر تو وہ الگ سے کر رہے ہیں نا۔ تو
یہ مسلمان امت کے ہاں سے اخذ کی جاتی ہے۔[1]
یہ تو درست ہے کہ حافظ ابن عبد البر اور
دوسرے بزرگوں نے سنت کی تفصیل بتاتے ہوئے
تواتر اور اس کے ثبوت کو بیان کیا ہے۔ لیکن سنت کے حوالے سے غامدی صاحب کے بدعتی
مذھب اور سنن کی گنتی میں وقت کے ساتھ ساتھ ان کی
تحقیق میں تبدیلی کی اصل وجہ سنت کی ’’متواتر‘‘ تک تحدید ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حافظ ابن عبد البر کی وہی عبارت جس کا موصوف نے حوالہ دیا ہے ان کے مذھب کے امت میں الكافة
عن الكافة نقل ہونے والے نکتہ
ہائےنظر کے خلاف ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔ حافظ ابن عبد البر لکھتے ہیں۔
وأما أصول العلم فالكتاب والسنة،
وتنقسم السنة قسمين أحدهما تنقله الكافة عن الكافة فهذا من الحجج القاطعة للأعذار
إذا لم يوجد هنالك خلاف ومن رد إجماعهم فقد رد نصا من نصوص الله يجب استتابته عليه
وإراقة دمه إن لم يتب؛ لخروجه عما أجمع عليه المسلمون وسلوكه غير سبيل جميعهم؛
والضرب الثاني من السنة أخبار الآحاد الثقات الأثبات المتصل الإسناد فهذا يوجب
العمل عند جماعة الأمة الذين هم الحجة والقدوة ومنهم من يقول: إنه يوجب العلم
والعمل جميعا
اصول علم (یعنی علم کی بنیاد ) دو چیزیں
ہیں۔ کتاب الله اور سنت رسول۔ اور سنت کی تقسیم دو حصوں میں ہے۔ ایک تو جس پر
اجماع ہے اور وہ تمام امت میں نسل در نسل منتقل ہوئی ہے۔ یہ حجت قطعی ہے ہر عذر کے
خلاف کیوں کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں پایا گیا۔ اور جس نے امت کے اجماع کو رد کیا
تو اس نے الله کی نصوص میں سے ایک نص کو
رد کیا تو لازم ہےکہ اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے اور اگر وہ توبہ نہ کرے تو اسے
قتل کر دیا جائے ۔ سنت کی دوسری قسم (وہ)
اخبار احاد ہیں جو کہ ثقہ ثابت راویوں کی متصل اسناد سے نقل ہوئی ہوں۔ یہ
احاد روایات امت کے علماء جو خود ایک حجت اور
قابل تقلید نمونہ ہیں ان کے نزدیک عمل کو لازم کرتی ہیں اور ان ہی علماء
میں کچھ وہ بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ یہ اخبار احاد علم اور عمل دونوں کو لازم
کرتی ہیں (یعنی عمل ہی نہیں عقیدے کی بنیاد بھی بن سکتی ہیں )[2]
حافظ ابن عبد البر کی اس
عبارت کا غامدی صاحب کی بات سے موازنہ کیا
جائے تو درج ذیل نتائج واضح ہوتے ہیں:
حافظ ابن عبد البر امت کے اکابرین کے حوالے سے برملا فرما رہے ہیں
ہے کہ سنت دو قسم کی ہوتی ہے، متواتر اور اخبار آحاد ۔ وہ مزید وضاحت فرماتے علماء
امت کے ایک گروہ کے نزدیک اخبار آحاد علم و عمل دونوں کو لازم کرتے جبکہ ایک گروہ
کے نزدیک وہ صرف عمل کو واجب کرتے ہیں۔ ان دو موقفوں کے برخلاف غامدی صاحب سنت
کو محض متواتر تک محدود کرتے ہیں۔ اپنی
کتاب میزان میں لکھتے ہیں؛
نبیﷺ کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر
اخبار آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنھیں اصطلاح میں حدیث کہا جاتا ہے، ان
کے بارے میں یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی
اضافہ نہیں ہوتا ۔[3]
غامدی صاحب کا اس طرح
حدیث کی حجیت کا انکار ہی سنت کا بارے میں ان کے مذھب کے باطل ہونے اور سنت کی
تحدید کرتے ہوئے ٹھوکریں کھانے کی اصل وجہ ہے۔
مزید یہ کہ سنت متواترہ
کے بارے میں حافظ ابن عبدالبر کے قول کو
اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہوئےغامدی صاحب نے فرمایا:
اس کی بنیاد پر ہم، اگر
وہ انکار کرے گا تو اس کے کفر و ایمان کا فیصلہ کریں گے ۔
غامدی صاحب کا یہ فرمانا
بھی دلچسپی سے خالی نہیں کیوں کہ خود غامدی صاحب کا موقف یہ ہے آنحضور صلی اللہ
علیہ وسلم کے بعد اب کسی شخص کے کفر و اسلام کا فیصلہ ممکن نہیں[4]۔
لیکن مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ حافظ ابن عبد البر نے ایسا نہیں لکھا۔ در حقیقت حافظ
ابن عبد البر نے لکھا تھا :
جس
نے امت کے اجماع کو رد کیا تو اس نے الله
کی نصوص میں سے ایک نص کو رد کیا تو لازم ہےکہ اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے اور
اگر وہ توبہ نہ کرے تو اسے قتل کر دیا جائے ۔
یعنی سنت متواترہ کا
انکار کرنے والا مرتد تصور ہو گا اور اس لئے واجب القتل۔ گویا مرتد کی سزا موت ہے۔
غامدی صاحب یہ بھی نہیں مانتے۔
سوال یہ ہے کہ سنت جیسی
ضروریات دین کے منکر کا کافر ہونا اور ارتداد کی سزا موت ہونا آیا خود امت میں تنقله
الكافة عن الكافة کے قبیل سے نہیں؟ اگر ہے تو کیا یہ خود سے سنت
نہیں اور کیا ان کا انکار باطل نہیں؟ اگر
نہیں تو کیا ایسی کوئی دلیل ہے کہ کسی بھی
دور میں ان امور پہ اتفاق نہ رہا ہو؟
در حقیقت سنت کی من مانی
تفسیر کرتے ہوئے غامدی صاحب اور ان کی روش پہ چلنے والے حضرات اکثر اپنے ہی بیان
کردہ اصولوں کو نظر انداز کر بیٹھتے ہیں۔ مثلا، حیات عیسی علیہ السلام اور ظہور
مہدی کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ لوگ سارا زور قران کی آیات میں کھینچا تانی اور
صحیح احادیث اور ان کے تواتر
کے انکار پر صرف کرتے ہیں اور یہ
نہیں خیال کرتے کہ یہ عقائد بھی تو امت میں تنقله
الكافة عن الكافة نقل ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ اور جب ایسا ہے تو ان
کے اپنے اصول کے مطابق مزید کسی دلیل کیا ضرورت ہی کیا ہے؟ اور اگر کوئی کہے کہ
ایسا نہیں ہوا تو اس کو اپنے دعوے کی دلیل
دینا ہو گی اور دلائل سے ثابت کرنا ہو گا کہ کس موقع پر امت میں یہ عقائد رائج ہوے
اور ان کی بنیاد کیا تھی؟
غامدی صاحب کے دو خاص
شاگرد ڈاکٹر شہزاد سلیم[5]
اور طارق ہاشمی[6] ظہور مہدی کے بارے میں روایات پر ابن خلدون کی
نقد کا حوالہ تو زور و شور سے دیتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ مہدی کے موضوع پہ
بحث کے آغاز میں ہی ابن خلدون نے لکھا ہے:
اعلم أنّ في المشهور بين الكافّة من
أهل الإسلام على ممرّ الأعصار أنّه لا بدّ في آخر الزّمان من ظهور رجل من أهل
البيت يؤيّد الدّين ويظهر العدل ويتبعه المسلمون ويستولي على الممالك الإسلاميّة
ويسمّى بالمهديّ
ہر
دور میں تمام اہل اسلام کے ہاں یہ بات مشہور رہی ہے آخری زمانے اہل بیت میں ایک
ایسے شخص کا ظہور ہو گا جو دین کی تائید اور عدل ظاہر کرے گا ۔ اور تمام مسلمان اس
کا اتباع کریں ہے۔ وہ تمام ممالک اسلامی پر مستولی ہو گا اور اس کا نام مہدی ہو گا۔[7]
اگر ابن خلدون کا یہ بیان
درست ہے تو روایات کی تحقیق کی ضرورت ہی
کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے اصل مسئلہ سنت کی من مانی تعریف
ہے جس کے پردے میں پرویز اور جیراج پوری جیسے منکرین حدیث کے افکار کی ترویج نو کی
کوشش کی جا رہی ہے۔ اور سنت کی من مانی تعریف ہی ہے جو غامدی صاحب اور ان کے
پیروکاروں کے افکار کا جمہور امت اور سبیل المومنین سے مختلف ہونے کا اصل سبب ہے۔
اور اسی پر خار پہ چلتے ہوئے ان کے افکار تضادات کا مجموعہ اور پراگندگی کی
تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ یہی ہے کہ سنت و حدیث
پہ مشق ستم ڈھانے کی بجائے اپنے افکار کا ازسر نو جائزہ لیں وگرنہ الجماعة کے طریق
سے ہٹنے پر گمراہی کی یقین دہانی تو خود ہادی عالمﷺ نے کرائی ہے۔
جا
مع بیان
العلم و فضلہ ، طبع المنیریہ ،مصر ، جلد ٢
صفحہ ٣٣-٣٤
میزان، طبع المورد ، لاہور ٢٠٠٩ ، صفحہ ٦١