بی بی سی سے اخلاقی جرأت رکھنے کا تقاضا!
ابن علی
عرصۂ دراز سے، بی بی سی
ہمارے مسلم معاشروں کو ’ٹیوشن‘ پڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اتنی جرأت نہیں کہ
تسلیم کرے کہ وہ یہاں ایک مخصوص الحادی مذہب کا داعی ہے اور لوگوں کا دین تبدیل
کرنے کےلیے سرگرم۔
تعجب ہمیں اس بات پر
نہیں کہ ابلاغ کا ایک نہایت مقبول عالمی ادارہ ہماری تہذیبی ساخت کرنے میں صبح شام
مصروف ہے... جنگ ہے تو اس پر واویلا کیسا! یہاں دنیا میں ہر کسی کا ایک عقیدہ ہے۔
ہر کسی کا کوئی دین ہے، خواہ وہ اسے ’’دین‘‘ کا نام دے یا اس پر کوئی اور لیبل لگا
لے۔ ہر کوئی اپنے دین کا تحفظ بھی کرتا ہے۔ اس کےلیے بےچین بھی ہوتا ہے۔ اس پر حرف
آئے تو تڑپ بھی اٹھتا ہے۔ اس کو فتح دلانے کےلیے سرگرم بھی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جب
کسی ایک دین، یا ایک طرز حیات کو غالب کیا جائے گا تو وہ کسی دوسرے دین یا دوسرے
طرز حیات کے مغلوب ہونے کی قیمت پر ہوگا۔ یعنی کسی ایک طرز حیات کو اونچا کرنا ہے
تو اس کے مقابلے پر کسی دوسرے طرز حیات کو نیچا بھی کرنا ہے۔
رہن سہن کی بابت کوئی
’دھرم‘ رکھنا اور اس کے مدمقابل کسی عقیدہ یا کسی تہذیب پر حملہ آور ہونا کیا بی
بی سی کا حق نہیں؟ یہ چیز بی بی سی کے ہی حق میں آخر ممنوع کیوں؟ بی بی سی کے
ہونہار کارندے اپنے اس عقیدے کےلیے یہ سب دوڑ دھوپ کرتے ہیں، یا ’جاب‘ کا حق ادا
کرتے ہوئے، آپ کو اس سے بھی کیا غرض؟ ’’پیسہ‘‘ اور ’’اچھی تنخواہ‘‘ آج بذات خود
ایک عقیدہ ہے، اس پر بھی بحث کی ضرورت؟
مگر یہ تو مانا جائے
کہ یہ ایک جنگ ہے۔ اور یہاں کوئی عقیدہ بول رہا ہے!
پس بی بی سی کے اِس
’’وار‘‘ کرنے پر تو ہمیں واقعی کوئی تعجب کیسا؟ یہ ادارہ ہماری تہذیب پر، جوکہ
ہمارے لیے دین ہے، بڑے کاری وار کر رہا ہے، اور جوکہ ایک کھلی حقیقت ہے، تو بھی ہم اس پر گلہ بہرحال نہیں کریں گے۔ ایسا واویلا
’کھیل‘ کے اصولوں کے منافی ہے۔ اسے مردانہ وار ہی سہنا ہوگا۔ تحمل اور بردباری
مردانگی کی علامت ہے۔ بی بی سی سو بار آئے۔ ہم سے جو بن پائے وہ ہم
کریں گے۔ اور اپنی قوم کو کھڑا کریں گےجس کا اگر صرف عشرِ عشیر اٹھ کھڑا ہو تو ان
شاء اللہ یہ میدان ہمارا ہے۔ ہار جیت کوئی نئی بات نہیں۔ یہاں ہر کسی کو زور لگانا
ہے۔ ہاں یہ کہنے میں حرج نہیں کہ
بی بی سی اپنے اندر اخلاقی جرأت پیدا کرے۔ جب وہ کھل کر ہماری تہذیب
کے خلاف برسر جنگ ہے تو پھر اس پر ’غیر جانبدار‘ بننے کی کوشش نہ کرے۔ ہمت سے کام
لے۔ یہ ’سپورٹس مین سپرٹ‘ بہرحال نہیں ہے! کھل کر کہے کہ وہ یہاں ہمارے دین اور
ہماری تہذیب کو مٹانے کے درپے اور اپنے دین اور اپنی تہذیب کے جھنڈے گاڑ جانے کے
مشن پر ہے۔ دشمن میں بھی بہادری کی صفت لوگوں کے یہاں پسند کی جاتی ہے!
آپ کہیں گے، بی بی سی
کا چھپ کر وار کرنا ہی تو اصل جنگ ہے! وہ اگرچہرے سے پردہ ہٹا دے تو پھر کیا
جنگ ہے! منافقت بھی تو جنگ کا ہی ایک طریقہ ہے اور بڑی دیر سے آزمودہ چلا آتا ہے۔
یہ ایسا بےفائدہ ہوتا تو دنیا میں متروک نہ ہو چکا ہوتا! پس اس پر بھی گلہ کیسا!
سچ ہے، جس دشمن سے آج ہمیں واسطہ ہے، اگر ہم اس سے واقف ہیں تو واقعی اس پر گلہ
کیسا! سامنے سے آنا دل گردے کا کام ہے، جبکہ دوستی کے پردے میں وار کر جانا
اور خیرخواہ کے بھیس میں واردات کہیں آسان اور مجرب! شر کے باوا ابلیس کی سنت!
اپنی ایک ’سنت‘ ادا کرنے سے آخر آپ کسی کو کیسے روک سکتے ہیں! وہ یہ تسلیم کرے کہ
وہ یہاں پر باقاعدہ ایک دین اور تہذیب کا داعی ہے، بلکہ ایسے دین اور ایسی تہذیب
کا داعی جس کے ساتھ عالم اسلام اپنی تاریخ کی خوفناک ترین جنگ لڑ رہا ہے؟! کیا آپ
کو معلوم ہے، بی بی سی کا یہ بات تسلیم کر لینا اُس کےلیے میدانِ جنگ سے باہر
ہوجانے کے مترادف ہے؟ آپ اس کا اتنا بڑا نقصان کیوں کرا دینا چاہتے ہیں؟
جب ہم یہ سب مان رہے
ہیں... تو پھر ہم مخاطِب کس سے ہیں؟
ویسے... کیا واقعتاً
دنیا میں کوئی نہیں جس کے ساتھ یہ بات اٹھائی جائے؟؟!
ہم بھی اتنے سادہ
نہیں۔ ہمارا مخاطَب دراصل ہماری اپنی قوم کے وہ لوگ ہیں، جن کا خیال ہے بی بی سی
ایسے ذرائع ابلاغ کسی اخلاقی قاعدے پر کھڑے ہیں! کیا اپنی قوم کو بتانا
اور جگانا تو ہمارا حق ہے یا نہیں... کہ
آج اسے کس قسم کے حریف سے واسطہ ہے؟ جس کا سب سے بڑا حربہ، تاریخ کی اس بےرحم ترین جنگ میں اُس کی
یہ ’’غیرجانبداری‘‘ ہی ہے۔ ہم کہتے ہیں، اُس کی اِس ’’غیرجانبداری‘‘ کا
پردہ ہی چاک کردو، اِس ساری جنگ کا پانسہ خودبخود پلٹ جاتا ہے۔
تو پھر آئیے، اپنی
قوم کو جگائیے۔ اپنے حریف سے گلہ کرنے کی بجائے اس کو بےنقاب کیجئے۔ اس کی اصل
تصویر سامنے لائیے۔ اور اس کی اخلاقی جرأت اور اس کی ’غیرجانبداری‘ کا پول
کھولئے۔ اپنے تہذیبی وجود کےلیے اٹھ کھڑے ہو جائیے؛ کوئی آپ کےلیے نہیں اٹھےگا۔
اور سب سے پہلے خود آنکھیں کھولیے، کہ آپ کس دنیا میں بس رہے ہیں، اور یہاں آپ کے
ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ کیسے کیسے بھیڑیے آج آپ کو وعظ کرنے میں لگے ہیں۔
ایسے بےشمار ادارے
یقیناً بہت شروع سے ہماری تہذیبی ساخت کرنے کا ’فرض‘ پورا کرتے آ رہے ہیں۔ لیکن اب
کچھ عرصے سے تو یہ بےصبرے ہو چکے۔ سیدھاسیدھا ’وعظ‘ ہی شروع کردیا ہے!
ایقاظ میں اس پر
وقتاًفوقتاً توجہ دلائی جاتی ہے، اور ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا قاری قوم کو
شعور دینے کی مہم کا علم اٹھائے۔[i]
ابھی حال ہی میں بی
بی سی ایک رپورٹ لاتا ہے جس کا عنوان دیا جاتا ہے: [ii]
’’خواتین کے لیے جسم
ڈھانپنا کب لازمی ہوا‘‘
’لباس‘ میں قوموں کے
اطوار پر، بہت کچھ پیشہ ورانہ انداز میں ہی آیا ہے۔ اتنی سی جانبداری کسی بھی
تہذیبی نظریے رکھنے والے انسان کی مجبوری ہے۔ یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ: ہند میں
’’مسلم خواتین عام طور پر خود کو اچھی طرح ڈھانپ کر رکھتی تھیں اور منقسم کپڑے
پہنتی تھیں‘‘۔ ہند میں ساڑھی وغیرہ ایسے لباس کی جگہ پر ’’منقسم لباس‘‘ کا چلن
ہونا ایک طرح سے ہند میں اسلام کی آمد سے جوڑا گیا۔ یہ سب ’’وقائع‘‘ کی باتیں ہیں۔
اس پر ہمیں بات نہیں کرنی۔ لیکن آخر میں لباس پر ایک زریں ’اصول‘ جاری کر دیا جاتا
ہے، نیز حیادار لباس پر زور دینے والوں کی ایک ’جہالت‘ کا ذکر بھی:
’’اور کچھ لوگ لباس
اور ریپ کے درمیان تعلق جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ ریپ کی
وجہ عورت کا لباس نہیں بلکہ یہ بعض مردوں کی غلط سوچ کا نتیجہ ہے‘‘۔
ہر شخص جانتا ہے،
اسلامی معاشرت ’’لباس‘‘ کے مسئلہ پر کن خدوخال پر کھڑی ہے۔ ’’عورت‘‘ کا حیادار
لباس پہننا اور اپنی کم لباسی کے ذریعے معاشرے میں فتنہ و مفاسد کا باعث نہ بننا
ہمارے دین کا ایک بہت بڑا مبحث ہے۔ یہاں، ایک جملے میں اس کو حرفِ غلط قرار دے دیا
جاتا ہے۔ ظاہر ہے، یہ تسلیم نہیں کیا جائے گا کہ ایک لچر تہذیب کا نمائندہ
ادارہ ہمیں اپنا دین پڑھا رہا ہے۔ صرف اپنا دین نہیں پڑھا رہا، ہمارے
دین کے کچھ بنیادی ترین اسباق کو ’جہالت‘ ٹھہرا رہا ہے۔ البتہ معروضیت اور
غیرجانبداری بدستور قائم ہے! اُس کے یہاں نہیں، ہماری قوم کے خیال میں!!! کتنے لوگ
ہیں جو یہ جان پائیں گے کہ یہ ابلاغی عمل واضح واضح، ہمارے اذہان کی لوح پر ہمارے
دین کی تحریر مٹا کر اپنے دین (جدید الحاد و بےحیائی) کی تحریر لکھ رہا ہے، اور
ہزارہا طریقے سے اُس کو گہرا کر رہا ہے؟
اور ویسے ’تحقیق‘ کا بھی حق ادا کردیا ہے:
’’یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے
کہ ریپ کی وجہ عورت کا لباس نہیں بلکہ یہ بعض مردوں کی غلط سوچ کا نتیجہ ہے‘‘۔
جی ہاں بی بی سی! یہ لوگ نہیں سمجھتے،
روپیہ پیسہ آپ محفوظ کر کے رکھیں یا کھلا چھوڑ دیں، چوری ہونے سے اس بات کا کوئی
تعلق نہیں۔ کل مسئلہ ’چور‘ کی ذہنیت سے ہے!!!
کیا بی بی سی ایسے کسی تجربے کا مشورہ دے
گا؟
ظاہر ہے، نہیں دے گا۔ کیونکہ پیسہ سنبھالنے
کی چیز ہے.. اور حیاء......؟!!
[i] بصورتِ اتفاق، انٹرنیٹ قارئین سے ہماری اِس تحریر کو عام کرنے کی اپیل
ہے۔
[ii] بی بی سی کی اس رپورٹ کا ویب لنک: http://goo.gl/x2n8SP