مراسلہ:
محترم سر! Question /Answer سیشن میں آپ کی ٹاک ماشاء اللہ اچھی تھی۔ توحید پر آپ کے focus سے میں نے یہ سوچا ہے کہ ہمیں زندگیوں میں توحید کو مزید راسخ کرنا چاہئے اور اس سے related material کو مزید consult کرنا چاہئے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے (آمین)
لیکن سر! آپ کی کچھ باتوں سے مجھے اختلاف ہے اور وہ میں آپ پر واضح کرنا ضروری سمجھتی ہوں۔ ہر شخص کا اپنا ایک نکتہ نظر ہوتا ہے اور آیا وہ ٹھیک ہے یا نہیں اس کو ہم قرآن کی کسوٹی پر پرکھیں گے کیونکہ قرآن ہی ہمارے اندر فرقان پیدا کرتا ہے نبیؐ کی حدیث کے مطابق ’’میں دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں جو ان کو مضبوطی سے تھامے گا وہ کبھی گمراہ نہ ہوگا‘‘۔۔۔ [1] تو سر! میں یہ سمجھتی ہوں کہ نبیؐ کے اُس دَور میں بھی اور آج فتنوں کے اِس دَور میں بھی قرآن و حدیث ہماری زندگیوں کو direction دیتے ہیں اور یہی دو بنیادی اور پرائمری sources ہیں جو ہمیں توحید کا سبق صحیح معنوں میں سمجھا سکتے ہیں۔[2] ایک محقق ہمیشہ اپنے ریسرچ ورک کیلئے پرائمری sources کو زیادہ بہتر سمجھتا ہے بجائے secondary sources کے۔ تو میں یہ سمجھتی ہوں کہ قرآن و جدیث کی depth میں جا کر انسان توحید کے بہت موتی سمیٹ سکتا ہے اور یہی ہمارے primary sources ہیں۔
باقی کتابیں چاہے وہ ابن تیمیہ کی ہوں، ابن القیم کی ہوں یا عبدالوہاب کی ہوں وہ سب سیکنڈری sources ہیں۔ ہاں قرآن کے ساتھ ان کتابوں سے ہم مزید استفادہ کرسکتے ہیں [3]اور کرنا بھی چاہئے تاکہ توحید کا سبق مزید پختہ ہو۔
لیکن سر! دین صرف چند شخصیات کے نکتہ نظر کو follow کرنے کا نام نہیں۔ ہمیں مختلف علمائے دین سے استفادہ کرنا چاہئے مگر اپنے original source کو نہیں بھولنا چاہئے بلکہ اِسے اولین اہمیت دینی چاہئے اور یہی {۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ }کا ماٹو ہے۔
محترم سر! میں آپ کو بھی یہ suggestion دینا چاہوں گی کہ آپ اپنے ’’داعی کورس‘‘ میں پورے قرآن کے فہم کو شامل کیجئے [4] کیونکہ جتنا اچھا داعی ’’اللہ کا کلام‘‘ تیار کرتا ہے وہ کوئی اور بک نہیں کرسکتی۔ ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کہ مدارس میں بہت کچھ پڑھایا جارہا ہے مگر پورا قرآن مکمل فہم کے ساتھ نہیں پڑھایا جا رہا۔ [5] میں سمجھتی ہوں کہ آپ جیسے solid knowledge رکھنے والے سکالرز کو اس ٹرینڈ کو بھی چینج کرنا چاہئے۔
سر! آپ کی اس بات سے میں 100% متفق ہوں کہ قرآن و سنت سے عقیدے کی پختگی کیلئے ضروری ہے کہ قرآن پڑھانے والے نے قرآن کے اصل مقصد یعنی توحید کو پوری طرح سمجھا ہو۔ سر! میں واضح کرتی چلوں کہ جس طرح ہمیں ’’اللہ کے کلام‘‘ سے رب کی پہچان، توحید کاسبق، شرک کا رد اور زندگی کا مقصد سمجھایا گیا اس سے پہلے ہم {۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ } گھرانوں میں پیدا ہونے والی لڑکیاں بھی اس سے ناسمجھ تھیں۔ آپ کی باتوں سے مجھے یہ غالب گمان گزرا ہے کہ آپ {۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ } کی علمی اپروچ سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ کیا آپ نے اُن کی پوری تفسیر سنی ہے؟۔۔۔ [6] سر! قرآن ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ پوری طرح تحقیق کیے بغیر کوئی بات نہیں کہنی چاہئے۔ [7]
سر! میں آپ کو یہ کہنا چاہتی ہوں کہ آپ غیرجانبداری سے {۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ } کی ساری تفسیر سنیے اُن کی علمی اپروچ کو جانئے، جو سبجیکٹس عقیدہ، علوم القرآن وغیرہ ہمارے ہاں پڑھائے جاتے ہیں ان کو ایک بار سٹڈی کیجئے پھر اگر آپ کو ’’توحیدکے سبق‘‘ میں کمی محسوس ہو تو پھر آپ ایسی books suggest کیجئے جو آپ کے خیال میں اس کمی کو پورا کردیں، تو یہ ایک صحیح اپروچ ہوگی [8] ۔۔۔ ورنہ سر معذرت کے ساتھ میں یہ کہوں گی کہ ہمارے دینی سرکلز میں یہ روایتی سوچ بہت زیادہ پائی جاتی ہے کہ ہر شخص، ہر گروہ بس اپنے نکتہ نظر کو ٹھیک سمجھتا ہے اور دوسرے کے نکتہ نظر کو negate کردیتا ہے بغیر اس کو پوری طرح جانے۔ [9] اور میرا خیال ہے کہ جتنا اس سوچ نے ہمارے دین کو نقصان پہنچایا ہے شاید ہی کسی اور چیز نے اتنا نقصان پہنچایا ہو۔ [10]
مرسلہ: ہ ۔ س
جواب:
آپ کی تحریر کے مختلف مقامات کو میں نے خط کشیدہ کر دیا ہے اور ایک ایک پوائنٹ کو نمبر دے دیا ہے، تاکہ اسی ترتیب سے میں اپنی گزارشات رکھ سکوں۔
*****
۱۔ اس سے کون انکار کر سکتا ہے؟
۲۔ ’’تحقیق’’ اور ‘‘ریسرچ ورک’’ کے لیے کس نے کتاب وسنت کے علاوہ کچھ اور تجویز کر دیا ہے؟ ‘‘تحقیق’’ اور ‘‘ریسرچ ورک’’ تو بہت بعدکی اشیاء ہیں۔ ہمارا موضوعِ گفتگو ‘‘ہدایت’’ تھا جوکہ بہت سادہ عمل ہے۔ اور کون ظالم ہے جو ہدایت کے لیے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کے علاوہ کچھ بھی تجویز کر کے دے ؟ ہدایت کتاب اللہ سے لینی ہے، یہ طے ہے۔ مگر اس کے لیے منہج صحابہؓ سے لینا ہے؟ معتزلہ سے لینا ہے؟ مستشرقین سے لینا ہے؟ جدت پسندوں سے لینا ہے؟ (آپ جانتی ہیں، سبھی نے قرآن کو موضوع بنایا ہے) روایتی طبقوں سے لینا ہے؟ ان بے سمت لوگوں سے لینا ہے جن کے لیے دنیا گول ہے اور جو شاید اصول اور فروع کے فرق سے واقف تک نہیں؛ قرآن مجید پکڑ کر ایک طرف سے شروع ہوتے اور دوسری طرف پہنچ جاتے ہیں؟ اُن حضرات سے لینا ہے جو ایک ایک آیت سے آپ کو ‘‘انقلاب’’ ثابت کرکے دیتے ہیں؟ مرجۂ سے لینا ہے؟ خوارج اور تکفیری رجحانات کے حامل طوائف سے لینا ہے؟ آپ تسلیم کریں گی مطالعہ قرآن (یا مطالعہ قرآن و حدیث) ان سبھی کا اوڑھنا بچھونا ہے، مگر نتائج پھر بھی اس قدر مختلف بلکہ متصادم! (قرآن ایک، مگر ہر شخص کا ‘فرقان’ الگ الگ!) میرا موضوع اصل میں یہ تھا، یعنی اوائل اسلام (صحابہ اور پھر ان کا وہ تاریخی تسلسل جسے اہل سنت کہتے ہیں) سے ایک منہج اور ایک سمت پا لینا جس کو لے کر آپ قرآن کی دنیا میں اتریں تو ہدایت کے آفاق کھل جاتے ہیں۔میرا کہنا یہ تھا کہ محض قرآن پڑھنا نہیں بلکہ اوائل اسلام کے منہج سے قرآن پڑھنا۔ (‘‘تفسیر’’ کا مسئلہ اس کے بہت بعد آتا ہے، اور ‘‘تحقیق’’ کا مسئلہ تو اس کے بھی بعد)۔ ہم بات کررہے ہیں ایک منہج اور ایک سمت کی، جوکہ عقیدہ واصولِ اہل سنت پر محنت سے ملتا ہے (کیونکہ یہی ہیں جنہوں نے رسول اللہﷺ کے اولین تلامذہ سے ایمان پڑھا اور پھر قرآن پڑھا )۔ حقیقت یہ ہے کہ ‘‘قرآن سے پہلے ایمان’’ سیکھنے سے متعلق جو اَثر میں نے صحابہؓ کے اقوال سے آپ کے سامنے رکھا تھا گو وہ ایک وسیع چیز ہے مگر وہ اِس معنےٰ کو بھی شامل ہے۔
۳۔ معذرت خواہ ہوں، میری گفتگو کا مقصد سمجھا نہیں گیا۔ آپ قرآن کے ساتھ ان کتابوں سے ‘مزید’ استفادہ کی بات کر رہی ہیں۔ اور میں قرآن سے آپکے ‘‘اولین’’ استفادہ کیلئے درست مقدمات prefaces کی بات کر رہا ہوں۔ یعنی سمت کی درستی۔ یہ چیز اگر حاصل ہو جائے تو ‘سیکنڈری سورسز’ کو میری طرف سے بالکل ہی چھوڑ دیجئے، ‘ساتھ ملا کر’ بھی ہرگز مت پڑھئے، صرف قرآن وحدیث پڑھیے، آپ ان شاء اللہ ہدایت کی نہایت اعلیٰ شاہراہ پر ہونگی۔ ہم تو صرف ‘‘سمت’’ کی درستی کی بات کرتے ہیں، ورنہ کتاب اور سنت پر اکتفاء کی بات جس قدر ہمارے اصولِ (اہل سنت) کرتے ہیں کسی کے اصول نہیں کرتے۔ کتاب اور سنت کا متبادل دنیا میں ہے ہی نہیں، نہ پرائمری نہ سیکنڈری۔ ‘‘ہدایت’’ جس چیز کا نام ہے وہ کتاب اور سنت کے سوا کہیں ہے ہی نہیں۔ کتاب اور سنت کو ‘‘کافی’’ جاننا ایمان کا باقاعدہ مسئلہ ہے۔ ہمارا دسترخوان صرف وحی ہے، اس کے سوا کسی چیز سے بھوک مٹانا نری محرومی اور درماندگی۔
آپ جن چیزوں کی بات کر رہی ہیں ان کا تعلق واقعتا ‘‘تفسیر’’ اور ‘‘تحقیق’’ سے ہوگا، جس سے مجھے کوئی اختلاف نہیں، اور جوکہ خاص لوگوں کا کام ہے۔ مگر میرا موضوع تھا ‘‘ہدایت’’، یعنی قرآن کے اصل مقصود کو پانا اور رسالتوں کے اصل مضمون کو سمجھنا۔ قرآن کی اساسی وبنیادی غایتوں کو دل نشین کرنا اور جب بھی قرآن کھولنا تو قرآن کا یہ اصل مضمون قرآن سے پڑھ کر اٹھنا۔ اور دیگر علمی تفصیلات کو بھی جن کا کوئی حدوحساب نہیں، اسی اصل فریم میں جڑ کر دیکھنا۔ سب ‘‘شُعَبِ ایمان’’ کو ‘‘حقیقتِ دین’’ کے اسی اصل شجر سے پھوٹتے ہوئے دیکھ سکنا اور ہر جزء کو اس کے کل سے برآمد ہوتا ہوا پانا۔ ہر ہر جزء میں اُسی کل کی اسپرٹ ڈالنا۔ درخت کے ایک ایک پتے میں اُس کی جڑ کا ذائقہ پا لینا۔ یقین کریں، آپ جب اِس شاہراہ پر چڑھ آتی ہیں تو ‘‘قرآن اور حدیث’’ آپ کو حیرت انگیز حد تک کافی ہوجاتا ہے اور عین اُس غایت کے لیے کافی ہوجاتا ہے جس کے لیے یہ دنیا تخلیق ہوئی اور شرائع اتریں۔ آپ اِس شاہراہ پر چڑھ آئی ہوں تو قرآن کی چند آیات ہی آپ کو ایمان کے کثیر مطالب تک پہنچا دیتی ہیں۔ بایں صورت اگر قرآن کی وہ چند آیات ہی آپ کا کل اثاثہ ہوں تو بھی کچھ مضائقہ نہیں۔ (یہی وجہ ہے صحابہ کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو ‘پورے قرآن’ کی عالم نہیں، بلکہ چند سورتوں کا عالم ہونا بھی ان کے نزدیک ایک بڑی بات تھی)۔
ہاں اس اصل primary work (تَعَلَّمْنَا الإیْمَانَ ثُمَّ تَعَلَّمْنَا الْقُرْآنَ) میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو قرآن اور حدیث سے بہت کچھ ملتا ہے (اور یقیناًفائدہ مند ہے) مگر وہ بڑی غایتیں ہاتھ نہیں آتیں جن کا دینا درحقیقت قرآن کے شایان ہے۔ آدمی بہت تھوڑے پر اکتفا کر رہا ہوتا ہے اور خوش اس بات پر ہورہا ہوتا ہے کہ وہ قرآن کو ‘ایک طرف سے شروع کر کے دوسری طرف تک’ پڑھ گیا ہے!
ویسے۔۔۔ یہ طرزِ فکر کہاں تک مبنی بر انصاف ہے کہ علمائے سلف و متقدمین کی تالیفات کو تو ہم ‘سیکنڈری سورس’ کہہ لیں (جس سے مجھے اختلاف نہیں)، البتہ یہ شخصیت جو آپ کو درسِ قرآن دے رہی ہے (میری مراد کسی خاص شخصیت سے نہیں) اس کا ایک آیت پڑھ کر اس پر آدھا گھنٹہ گفتگو کرنا ‘‘سیکنڈری سورس’’ نہیں؟!! آپ ہی بتائیے کونسا ‘‘سیکنڈری سورس’’ بہتر اور مستند تر اور ناگزیرتر ہے؟
اب یہاں میں جو بات کروں گا وہ ایک عمومی حوالہ سے ہے (کوئی معیّن حلقہ مقصود نہیں) اور آج کے ‘دروسِ قرآن’ سے منسلک اُن بیشتر حلقوں پر صادق آتی ہے، جن کا کل سہارا سلف سے ملنے والے اصولِ ایمان نہیں اور جو مصادرِ فہم کے معاملہ میں لوگوں کو اصولِ سلف سے جوڑ بھی نہیں رہے۔۔۔:
یہ حلقے قرآن پڑھاتے ہوئے بڑی حد تک اپنا ذہن پڑھا رہے ہوتے ہیں۔ چلئے اس کو بھی ہم جیسے کیسے ہضم کرلیں، مگر اس پر ستم یہ کہ اثاثۂ سلف کو ‘سیکنڈری سورس’ کے کھاتے میں ڈالتے ہیں جبکہ اپنی تفہیم کو ‘‘پرائمری سورس’’ سے ملحق باور کراتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ طالبعلم کے پاس کوئی ‘‘مستند سیکنڈری سورس’’ سرے سے نہیں چھوڑتے۔ کیونکہ یہ خود ایک ‘‘سیکنڈری سورس’’ دے چکے ہوتے ہیں جوکہ اکثر طالبعلموں کی ‘‘ضرورت’’ پوری کردینے والا ہوتا ہے۔ مگر ایک تو زیادتی یہ کہ اِن کی اُس تفہیم کو طالبعلم ‘‘پرائمری’’ سمجھ کر لے رہا ہوتا ہے اور دوسری زیادتی یہ کہ ان کا وہ ‘پرائمری’’، سلف والے ‘‘سیکنڈری’’ کی نسبت غیرمستند ہوتا ہے۔ یوں یہ ہوتا ہے کہ ایک ‘‘غیر مستند’’ سیکنڈری سورس ایک ‘‘مستند’’ سیکنڈری سورس کا متبادل بن جاتا ہے اور لوگ اپنی بھوک ایک نہایت ادنیٰ (اور بہت سے حالات میں مضر) چیز سے ہی مٹانے لگتے ہیں، ساتھ میں یہ تصور کہ معیاری چیزوں کی طلب کرنا قرآن و حدیث پر اضافہ ہے! ‘تقلید’ کی حوصلہ شکنی فی الوقت ایسے ہی سطحی رویوں کو جنم دے رہی ہے۔ یعنی ادنیٰ کی ترویج ہی نہیں، اعلیٰ کو اس کے مقابلے پر ہلکا اور ثانوی بھی قرار دینا! (قربِ قیامت کی ایک علامت، یعنی علم وفہم کے معاملہ میں اکابر کی بجائے اصاغر کی جانب رجوع ہونے لگنا):
عن أبی امیۃ الجمحی أن النبی ﷺ قال: إن من أشراط الساعۃ ثلاثۃ، إحداھن أن یُلْتَمَسَ العِلْمُ عند الأصاغر۔
قیامت کی نشانیوں میں سے تین ہیں۔ ایک یہ کہ: علم، اصاغر کے ہاں تلاش ہونے لگے گا
اندازہ کرلیجئے، ایک مستند و معیاری فہم کی شرط لگانا قرآن و حدیث پر اضافہ.. جبکہ ایک غیر مستند تفہیم پر اکتفا کرنا خالص اتباعِ حق!!!
۴۔ پورا قرآن پڑھانا کمال کی بات ہے۔ طالبعلم کی ہمت ہو تو ضرور یہ کام کرے۔ تاہم جیساکہ میں نے عرض کیا، پورا قرآن بغیر کسی ٹھوس منہج کے پڑھنے کی نسبت یہ کہیں عظیم تر ہے کہ قرآن کی چند سورتیں یا حتیٰ کہ چند آیات کسی اسلوب اور دستور سے پڑھ لی گئی ہوں۔ لہٰذا اصل ترجیح اور ترکیز کا محور میرے لیے یہ ہے۔ انسؓ کہتے ہیں: وکان الرجل إذا قرأ البقرۃ وآل عمران جَدَّ فینا ‘‘آدمی بقرۃ اور آل عمران پڑھ لیتا تو ہمارے مابین بزرگ جانا جاتا’’۔ (تصور کرلیں ‘‘پورا قرآن’’ پڑھا ہونا صحابہ کے ہاں کیا معنیٰ رکھتا ہوگا.. اور جبکہ ہمارے ہاں۔۔۔؟!) اِسی سے ملتے جلتے دیگر اقوال بھی سلف سے ماثور ہیں جس میں قرآن پڑھنے کی باقاعدہ ایک اپروچ سامنے آتی ہے، اور جوکہ آپ محسوس کریں گی رائج اپروچ سے خاصی مختلف ہے۔ کچھ توجہ اس کو بھی۔
۵۔ مدرسوں پر آپ کی تنقید بجا ہے، گو مجھے اصل شکایت اس اپروچ سے ہے جو تعلیم قرآن کے حوالے سے اختیار کرائی جاتی ہے۔ وہ چیز جسے آپ ‘قرآن پڑھانا’ کہتی ہیں بنیادی طور پر ایک get through ہے۔ یہ ایک تیزی سے ہوجانے والا عمل ہے۔ یقیناًاس کا کچھ فائدہ ہے؛ چند سورتوں پر کروا دینا بھی اچھا ہے، ساری سورتوں پر کروادینا اور بھی اچھا۔
۶۔ یہ ایک نہایت مستحسن بات ہے۔ جن گھرانوں کا آپ نے ذکر کیا ہے اُن کے لیے آپ کا کام نہایت خوب ہے۔
۷۔ میرے سامنے کوئی معین شخص نہیں تھا۔ اگر میں کسی معین شخص کے بارے میں کوئی اطلاع بغیر تحقیق کے نشر کروں تو یقیناًزیادتی ہوگی۔
۸۔ یہ تو عرض کر چکا کہ میرے سامنے کوئی معین شخص سرے سے نہیں تھا۔ تاہم ایک فائدے کی بات کہتا چلوں۔ ‘پوری تفسیر’ سننے یا پڑھنے کی احتیاج اُس وقت ضرور ہوگی جب کسی مفسر پر کوئی تھیسس کرنا ہو۔ کسی کی دعوت کو جاننا البتہ اس سے کہیں زیادہ سادہ اور آسان عمل ہے۔ رسول اللہﷺ کی دعوت ہمیشہ چند الفاظ میں بیان ہوتی تھی۔ بادشاہوں کو تحریراً دعوت بھیجی گئی تو بھی چند الفاظ میں۔ قیصر روم کے سوال ماذا یأمرکم؟ پر ابوسفیان نے چند الفاظ میں ‘‘نبیﷺ کا اپنی قوم سے مطالبہ’’ بیان کرکے رکھ دیا جو کہ ایک داعی کی کمال کامیابی ہے کہ ایک دشمن بھی چند لفظوں میں بتادے کہ یہ شخص ‘‘کہتا کیا ہے’’۔ مگر اِتنی ‘‘آسان بات’’ ممکن تب ہوتی ہے جب دین کی اصل اور اساس پر آدمی کا ہاتھ پڑ چکا ہو اور اسی پر اس کا کل زور صرف ہوچکا ہو۔
۹۔ ضرور یہ اچھے کورسز ہوں گے۔ میرا ملاحظہ کسی خاص ادارہ اور اس کے تعلیمی سسٹم پر ہو تو ضرور میں اس کے کورسز پر کوئی معیّن تبصرہ یا خیال ظاہر کروں۔ مگر میری ساری گفتگو یہاں پائے جانے والے عمومی رجحانات کی بابت تھی۔ آپ کا تعلیمی سسٹم ان شاء اللہ ضرور بہت اعلیٰ ہوگا۔ اللہ کا شکر ہے بہت سی خلقت آپ کے ادارے سے مستفید ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی ان خدمات کو مزید کامیاب اور بابرکت کرے۔
۱۰۔ نہایت صحیح بات ہے۔ مجھے سوچنا چاہئے کہ میرے بیان یا اسلوب سے کوئی ایسی بات نہ ہو گئی ہو۔اور اگر ایسا کوئی تاثر بھی ملا ہے تو معذرت خواہ ہوں۔ دوسری جانب آپ کو بھی دیکھ لینا چاہیے کہ معاشرے میں ایک عمومی خامی کا ذکر ہونے پر یہ آپ کو خاص اپنے اصحاب پر تنقید کیوں نظر آئی۔