|
|
|
|
|
مستعار
یہ دنیا ہے !!!
دانیال عبد الرشید
طالبان نے ایک امریکی فوجی برگڈال کی ویڈیو جاری کی ہے ۔ امریکی فوجی کے آگے روٹی اور قہوے کا کپ رکھا ہے اور وہ ایک شخص کے سوالات کے جواب میں کہتا ہے کہ میں بہت خوفزدہ ہوں ۔ لوگ حکومت کو مجبور کرنے کے لیے سڑکوں پر نکلیں ، امریکہ افغانستان میں اپنی جانیں اور قیمتی وقت ضائع کر رہا ہے ۔ اسے افغانستان سے نکلنا چاہیے ، ہم سب کی گھر واپسی یقینی بنائی جائے وغیرہ وغیرہ ۔ امریکہ کی وزارتِ دفاع پینٹا گون نے ویڈیو کو اصلی تسلیم کر لیا ہے مگر طالبان کی شدید مذمت کی ہے کہ انھوں نے عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی اور قیدی کے حقوق پامال کیے ہیں ۔ مجھے بذاتِ خود یہ ویڈیو اور تصویر دیکھ کر کافی صدمہ ہوا ۔ طالبان کو علم ہی نہیں ہے کہ آج کل انسانی حقوق کیا ہیں اور قیدیوں کی کس طرح کی تصاویر ریلز کی جاتی ہیں ؟ بیچارے قدیم زمانے کے لوگ ہیں کم از کم چودہ سو سال پرانے ، وہ کیا جانیں کہ جدید زمانے نے قیدیوں کے لیے کیا خوبصورت انسانی حقوق وضع کئے ہیں ۔ طالبان نہ ٹی وی دیکھتے ہیں اور نہ اخبارات سے زیادہ شغل رکھتے ہیں ، نہ انھیں کمپیوٹر پر انگلیاں گھمانے اور اسکرین پر نظریں جمانے کی فرصت ہے ۔ قیدی کو مکمل لباس میں ملبوس کرنا ، کھانے کے لیے روٹی دینا ، زنجیروں اور ہتھکڑیوں کے بغیر بٹھانا ، انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی اور پامالی کے زمرے میں آتے ہیں ۔ اس لیے امریکہ کا احتجاج بجا ہے ۔ غصہ آنا فطری ہے ۔ اور بیان بازی حق ہے۔ جدید عالمی قوانین کے مطابق اگر یہ تصویر کچھ یوں ہوتی کہ قیدی تنگ لباس میں یا بالکل بے لباس ہوتا ، اس کے جسم کو کوئی کتا بھنبھوڑ رہا ہوتا یا کوئی انسانی درندہ ضربیں لگا رہا ہوتا ، ارد گرد کئی لوگ اس کی حالت پر قہقے لگا رہے ہوتے ، کوئی اس کے سر پر مکے برسا کر وکٹری کا نشان بنا رہا ہوتا ، اس کے برہنہ جسم پر کئی لوگ سوار ہوتے ، اسے تاروں سے کرنٹ دیا جا رہا ہوتا یا جسم پر نجاست یا گندگی مل دی گئی ہوتی ، اس کے گلے میں پٹہ ڈال کر گھسیٹا جا رہا ہوتا ، اس کے نازک اعضاءکھینچے جا رہے ہوتے تو آپ دیکھتے ، امریکہ طالبان کو شاباش دیتا ، خراجِ تحسین پیش کرتا ، انھیں مبارکباد کا پیغام بھیجتا کہ پتھر کے زمانے میں رہنے والے ان قدامت پسندوں کو جدید دنیا کے علم کا کچھ علم و ادراک تو ہوا ۔ انھوں نے بھی کسی کام میں ”مہذب “ دنیا کا اتباع تو کیا ۔ انھیں بھی روشن خیالی کی کچھ سمجھ تو آئی ۔ مگر افسوس طالبان وہی کے وہی رہے ۔ گوانتاناموبے ، ابو غریب اور بگرام کے عقوبت خانوں میں انسانی حقوق کے نگہبان امریکہ نے قیدیوں کے ساتھ جو کچھ کیا اور پھر اس حسنِ سلوک کی تصویر کشی کر کے جس طرح دنیا بھر میں بانٹی ، یہ اس بات کا اعلان تھا کہ آج کے بعد دنیا میں قیدیوں کے یہ حقوق ہیں اور ان کے ساتھ عالمی قوانین کے مطابق یہ سلوک کیا جانا چاہیے ، امریکہ کے غلاموں یعنی اتحادیوں کے ممالک میں بھی عرصہ ہوا قیدی کے حقوق کا یہی جدید چارٹر نافذ العمل ہے ۔ یہ ممالک خواہ کفریہ ہوں یا ’ اسلامی ‘ ہر کسی نے اپنے قیدیوں کو مکمل طور پر یہ حقوق مہیا کر رکھے ہیں ، ان ممالک کے قید خانوں سے رہا ہو کر آنے والا ہر شخص اسی ” حسن سلوک “ کی داستان سناتا ہے اور روتا رلاتا ہے۔ امریکہ نے بہت اچھا کیا کہ طالبان کی اس ” بد سلوکی “ پر احتجاج کر کے دنیا کو بتا دیا کہ وہ ان ”درندوں “ کے خلاف جو جنگ لڑ رہا ہے وہ بالکل صحیح اقدام ہے ۔ (بشکریہ دانیال عبد الرشید)
|
|
|
|
|
|