ایمان کا سبق
يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ(1)
استفادہ از: امام ابن القیم
ملائکہ کا خیال تھا ہمارا پروردگار جو بھی تخلیق کرنے جارہا ہے، ہم سے بہتر آخر کیا چیز تخلیق کرے گا! مگر کیا دیکھتے ہیں، پروردگار آدم کو پیدا کر لیتا ہے تو احکامات جاری ہوتے ہیں: فرشتے اس کو سجدہ کریں! جی ہاں، سجدہ!!! اب فرشتوں نے جانا کہ یہ ’علم‘ اور ’معرفت‘ ہے جس کے دم سے خاک میں یہ جوہر آچکا ہے کہ ایک ایک فرشتہ اس کے آگے سجدۂ تعظیمی بجا لائے گا!
پھر جب آدم گناہ کر بیٹھا تو فرشتوں کو شاید ایک بار پھر لگا کہ خاک کے پتلے کی یہ فضیلت جو ’علم‘ نے اس کو بے تحاشا دلوا رکھی تھی اب ہمیشہ کیلئے جاتی رہی! مگر فرشتوں نے ’توبہ‘ کے کرشمے تو ابھی دیکھے ہی نہ تھے جو مٹی کی اس مخلوق کو ربِ کریم کی جانب سے بخش دیے گئے! ’توبہ‘ عبودیت کی وہ خاص صورت ٹھہری جو آدم کے وجود میں کمال حسن کے ساتھ اپنا اظہار کررہی تھی اور خدا کی رضا و خوشنودی کو آدم کے حق میں بدرجۂ اتم بحال کرا لائی تھی! تب فرشتوں نے جانا کہ کیچڑ سے بنی اس مخلوق کے ساتھ خدا کا کوئی خاص ہی معاملہ ہے!
ذرا غور کرو، انسان زمین پر ابھی اترا نہیں کہ اس کی تعیناتی یہاں پہلے ہوجاتی ہے! فرمایا:إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً (2)۔ بلکہ اس کے پیدا ہونے سے پہلے اس کی تعیناتی ہوجاتی ہے۔ اِس کیلئے منصب پہلے پیدا کیا جاتا ہے اور یہ اس کے بعد!
خدا نے آدم کو ’علم‘ کی دولت سے سرفراز کیا تو مخلوقات اس کے رُوبرو لائی گئیں۔ تب خدا نے ’وَنَحْنُ‘(3) کے دعویدار بھی ’أَنبِئُونِي‘(4) کی پیشی پر حاضر کر لئے۔’وَعَلَّمَ ‘(5) کی شہادت البتہ ان سے روپوش رکھی اور عین وقت پر ہی بھری کچہری میں سامنے آنے دی۔ تب ’دعووں‘ کے سر نیچے ہوگئے اور ’اعترافِ حق‘ سامنے آگیا! آخر ’مرتبہ وفضیلت‘ کا فیصلہ صادر ہوا اور فرشتوں کی دنیا میں ’اسْجُدُواْ‘(6) کی منادی کرائی گئی۔’وَنَحْنُ‘(3) کہہ بیٹھنے والوں نے ’لاَ عِلْمَ لَنَا ‘(7) کے ظرف میں ’اعتذار‘ کے پانی سے وضو کیا اور ’رضا وتسلیم‘ کی صورت پاکیزگی پائی۔ مگر ابلیس کہ ذات کا خبیث تھا، الگ تھلگ رہا۔ اس کو ’اعتذار‘ کی پاکیزگی کہاں نصیب ہوتی کہ ’اعتراض‘ کی نجاست اٹھائے پھرتا تھا؟! یہ نجاستِ عین تھی جو کسی دھونے سے نہیں جاتی!
اب جب نظامِ ہستی میں کمالِ آدم کی یہ حیثیت طے کرادی گئی، تو ضروری تھا کہ ’اسْجُدُواْ‘(6) کے چہرے پر عجز و انکساری کا ایک تمغہ بھی سجا دیا جائے۔ اب آدم سے گناہ سرزد ہوتا ہے تاکہ ’توبہ‘ کے نتیجے میں اس کی جبین پر عبودیت کی ذلت ایک تا اَبد نشان کی طرح بیٹھ جائے!
آدم! تیرا کھایا ہوا وہ لقمہ تجھے اگر یونہی معاف کردیا جاتا تو تیرے حاسد کہتے: ایک حرص کی ماری ہوئی مخلوق جس کو ایک پیڑ پہ پھل دیکھ کر یارائے ضبط نہ رہا، کیونکر سب پر فضیلت پاگئی! تجھے جنت میں ہی چھوڑ دیا گیا ہوتا تو بلندیوں کے مسافر کیونکر اپنا آپ بتاتے اور عظیم نفوس کے مالک کیونکر جانے جاتے؟! ’کیا کوئی ہے جو مانگے اور میں اس کو دوں‘ کی منادیِ نیم شب اِس تسلسل کے ساتھ پھر کیونکر ہوتی؟! ’روزے دار کے منہ کی بو‘ عرش والے کے ہاں اپنی قدر کیونکر پاتی؟!
آدم! جنت میں تیرا ہنسنا تیرا مسئلہ تھا یہاں تیرا توبہ کے آنسو رونا اب ہمارا مسئلہ! اس شخص کو کیا پروا جو میرے جلال کے آگے مات کھا جائے اور پھر میرا فضل اس کی سب تلافی کردے! میری بخشی ہوئی خلعت فاخرہ، انکساری کے بدن پر ہی سجنے کیلئے تو ہے!کوئی مجھے ڈھونڈے تو ان دلوں کے آس پاس جو میری خاطر ٹوٹے ہوں!
وہ ایک لقمہ جو کسی وقت کھا لیا گیا تھا، برابر اپنا اثر کرتا رہا یہاں تک کہ اِس کی اولاد میں بیماری کا اثر صاف دیکھا جانے لگا۔ تب اُس لطیف اور خبیر نے اطبائے وجود کو اپنے یہاں سے وہ تریاق دے کر بھیجا جس پر فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى(8) کی دائمی مہر تھی! ان طبیبوں نے اِن کو نہایت خوب ’پرہیز‘ بتائے۔ قوت کی بحالی کیلئے ’احکامات‘ کے کامیاب ترین اکسیر پلائے۔’توبہ وانابت‘ کے عمل سے اِن کے ہاں جمع شدہ سب فاسد مادوں سے ان کو پاکیزگی دلائی۔ تب ہر سمت تندرستی کا دور دورہ ہوا!
ارے اے نادان جس نے شفایاب ہونے کے یہ سب مواقع کھو ڈالے، جس نے انبیاءکے بتائے ہوئے کسی پرہیز کو مان کر دیا اور نہ نفس میں بیٹھے غلیظ مادوں سے پاک ہونے کی ’تکلیف‘ گوارا کی.. خاطر جمع رکھ، تباہی آیا ہی چاہتی ہے! یہ مرض جس کو تو یوں پوس پوس کر رکھتا رہا اِس کے ہاتھوں تو سو بار مرے گا مگر تجھے موت نہ آئے گی اس حال میں کہ موت پانا تیری سب سے بڑی خواہش ہوگی! کیا ہی بہتر تھا تو خدا کے فرستادہ ان طبیبوں سے علاج کرا لیتااور یہ ہلکی سی تکلیف جو تجھ پر گراں گزرتی ہے برداشت کر لیتا! تب ہزارہا نفیس لذتوں اور خواہشوں سے ہمیشہ ہمیشہ لطف اندوز ہوتا رہتا ! کون تجھے وہاں منع کرنے آتا؟! مگر جس گھٹیا خواہش کے بخار میں تو اس وقت مبتلا ہے اس نے سب سے بڑھ کر تیری بصیرت کو ہی متاثر کر رکھا ہے، جس کے باعث تجھے ’عقلمندی‘ اب یہ نظر آتی ہے کہ خدائے کائنات کے ایک نہایت عظیم وعدے کو ’نقد‘ کے شوق میں تو چند ٹکوں کے عوض بیچ ڈالے! وائے عاقبت نا اندیشی! ایک ساعت صبر نہ کرسکا اور اَبد کی ذلت اور عذاب سہنے پر کس شدت کے ساتھ تیار ہے!
جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ نفیس کو خسیس کے بدلے بیچ رہا ہے اور عظیم چیز دے کر ایک حقیر چیز خرید رہا ہے، اور اس پر مارے خوشی کے بے قابو ہوا جاتا ہے، تو جان لو احمق یہی ہے!
٭٭٭٭٭
”ابن آدم! اگر تو زمین برابر خطائیں لے کر بھی میرے پاس آئے اور مجھ سے ملے اس حالت میں کہ تو نے میرے ساتھ کچھ شرک نہ کیا ہو، تو میں اتنی ہی مغفرت کے ساتھ تیرا سامنا کروں“
چونکہ ’حقیقتِ عبدیت‘ آدمؑ کے ہاں برقرار تھی، لہٰذا گناہ اس کیلئے باعثِ قدح نہ ہوا۔ مالک نے جب یہ دیکھا کہ گناہ سرزد ہوتے وقت اُس کے بندے کا مقصد اُس کی مخالفت کرنا نہ تھا اور نہ اِس کو مالک کی حکمت اور دانش پر، کہ کیوں اُس نے وہ حکم دیا تھا، کچھ اعتراض تھا، لہٰذا اُس نے اِس گناہگار کو اب یہ علم عطا کردیا کہ کس طرح یہ مالک کے سامنے اپنا عذر رکھے اور آئندہ بھی قصور ہوجائے تو کس طرح مالک کو منالیا کرے! اس سے بڑھ کر بھی صاحبو کوئی ہنر چاہیے؟!!!!
فَتَلَقَّى آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ!!!(9)
زمین پر تو اِس مخلوق کو ویسے ہی آناتھا کہ اِس کی تعیناتی تخلیق سے بھی پہلے اسی زمین پر ہو چکی تھی، مگر توبہ سے دھل جانے کے بعد یہ مخلوق اپنے مالک کی نظر میں پھر سے بھلی ہوگئی تھی!!!
پس گناہ اس کیلئے وہ نقصان دہ نہیں، جو حالتِ عبدیت میں بھول چوک سے اور شیطان کے بہکاوے سے اور نفس کے بے قابو ہوجانے سے کسی وقت سرزد ہوجائے اور پھر یہ اس پر تائب ہو کر مالک کی جانب پلٹ آئے، اور اپنے اس قصور پر مالک کے سامنے اور بھی ذلت محسوس کرے۔گناہ جو اس کو مروائے گا، وہی ہے جس کے کرنے والے کے ہاں حالتِ بندگی ہی نہ پائی گئی ہو۔مالک کا مقام ہی جس کے ہاں متعین نہ ہوا ہو۔ مالک کے سامنے اپنی حیثیت ہی نہ جانی گئی ہو۔ جواب دہی کی فکر ہی نہ پائی گئی ہو۔اور ندامت کا خیال بھی اس کو اوپرا لگتا ہو!
ابن آدم کے اجزائے ترکیبی میں ’گناہوں کا سرزد ہوجانا‘ شامل نہ ہوتا، تو فرشتوں سے سجدے کروانے والی اس مخلوق کا نخرہ ساتویں آسمان سے باتیں کرتا! خاک کی اس مخلوق کو خاک پر رکھنے کیلئے ضروری تھا کہ اس سے گناہ ہوجایا کریں اور پھر یہ خدا سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کرے۔ بخشش کی التجائیں کرتے ہوئے سجدوں میں پڑا یہ اِسی مٹی پہ ماتھا رگڑے اور ہوسکے تو اسی کو آنسوؤں سے تر کرے!
پس ’گناہ کر بیٹھنا‘ اگر اِس کی ترکیب میں نہ ہوتا تو ’توبہ کی ذلت‘ جو مالک کی نگاہ میں اس کا نہایت قیمتی زیور ہے، اس کے ماتھے پر نہ سجتا! اس کو وہ انکساری نصیب نہ ہوتی جو مالک کے آگے اس کی کمر دہری کروا دیتی ہے!
صاحبو! خدا کے آگے ذلت ایسی عزت کہیں نہیں پائی جاسکتی! خدا کے آگے عاجزی ایسی سربلندی کہیں ممکن نہیں! جو اِس نفس کو آرام دینا چاہے، اُسے چاہیے اِسے خدا کی خاطر تھکائے! جو اِسے خوشیوں سے لاد دینا چاہے، اُسے چاہیے اِسے خدا کی خاطر غم اور پریشانیاں اٹھوائے!اسے سیر کرنے کی بہترین صورت یہی ہے کہ کوئی آج اسے خدا کی خاطر بھوکا رکھے!اس کو بے خوف رکھنے کی اس سے بہتر کوئی صورت نہیں کہ آج وہ اِسے خوب ڈرا کر رکھے۔خلد میں اِس کے اُنس پانے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کہ آج اِس کا کہیں دل نہ لگے، سوائے اپنے خالق اور اپنے فاطر ہی کے ساتھ! اِس کے زندگی پانے کی اس سے بہتر کوئی صورت نہیں کہ آج یہ موت کی تلاش میں پھرے!
مَوتُ النفوسِ حیاتُہا .... من شاءَ اَن یحیا، یموت!(10)
(استفادہ از کتاب الفوائد مؤلفہ ابن القیمؒ، ص 64-67)
(1) (الانفطار: 6) ”اے انسان! آخر کس چیز نے تجھے فریب میں ڈال دیا تیرے پروردگار کی بابت، جو کرم کامالک ہے؟!“
(2) إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً ”بے شک میں زمین میں ایک خلیفہ پیدا کرنے والا ہوں“
(3) وَنَحْنُ”اور ہم“ (مراد ہے فرشتوں کا آدم کی تخلیق کے وقت ’اپنی‘ اس تسبح و تقدیس کا ذکر کرنا جو وہ خدا کی تعظیم میں صبح شام کرتے ہیں)
(4) أَنبِئُونِي ”مجھے بتاؤ تو“ (مراد ہے فرشتوں کاامتحان کرنے کیلئے خدا کا ان کو یہ کہنا کہ مجھے ان چیزوں کے نام تو بتاؤ)
(5) وَعَلَّمَ ”اور اُس نے سکھا دیا“ (مراد ہے اُس نے آدم کو ان ناموں کا علم دے دیا)
(6) اسْجُدُوا ”سجدہ کرو“ (مراد ہے خدا کا فرشتوں کو حکم دینا کہ ’سجدہ کرو آدم کو‘)
(7) لاَ عِلْمَ لَنَا ”نہیں ہمیں کوئی علم“ (مردا ہے فرشتوں کا یہ کہنا: ’نہیں ہمیں کوئی علم مگر وہی جو تو نے ہمیں سکھایا‘)
(8) ”نہ وہ بھٹکے گا اور نہ وہ تباہی میں پڑے گا“ (اشارہ ہے سورہ طہ آیت 123 کے ان الفاظ کی طرف:فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى ”تو پھر جب آئے گی تمہارے پاس میری جانب سے ایک ہدایت، تو جو بھی میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ تو بھٹکے گا اور نہ تباہی میں پڑے گا“)
(9) البقرۃ: 37”تب آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات کا القا پایا، تب پروردگار نے اس کی جانب رجوع فرمایا۔ بے شک وہ تو ہے ہی تواب اور رحیم“!
(10) نفوس کا موت طلب کرنا دراصل ان کا زندگی پانا ہے۔ جو چاہے کہ زندگی کا لطف پائے اسے چاہیے وہ مرنا قبول کرے!