بلیک واٹر
ذیشان یاسین
ستمبر کی سولہ تاریخ تھی اور سال2007 ءامریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا ایک قافلہ بلیک واٹر کی زیرِ نگرانی عراق کے نصور چوک کی طرف اڑ اجا رہا تھا۔ درمیان کی گاڑی میں ایک سینئر امریکی افسر براجمان تھا جسے بلیک واٹر کی بلٹ پروف گاڑیاں گھیرے میں لیے ہوئے تھیں۔ وہ سڑک کے الٹی طرف بڑی تیز رفتاری سے جارہے تھے۔ عراقی پولیس نے عام ٹریفک کو زبردستی روکا ہوا تھا تاکہ قافلہ باآسانی گزر سکے۔ ایسے میں ایک گاڑی چوک میں داخل ہوئی۔ پولیس کے ایک اہلکار نے اسے رکنے کے لیے للکارا ، لیکن ڈرائیور اس کی بات نہ سن سکا۔ اپنے امریکی کلائینٹ کی حفاظت پر مامور بلیک واٹر کے ذمہ داران نے لمحوں میں اس پر فائر کھول دیا۔ شدید فائرنگ سے پوری گاڑی چھلنی ہو گئی لیکن اسی پر بس نہ کی گئی۔ اس پر مزید ہینڈ گرنیڈ پھینکے گئے ، جس سے وہ آگ کی لپیٹ میں آ گئی۔ ایسے میں پورا نصور چوک فائرنگ سے گونج اٹھا۔ لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے گاڑیوں سے کود کود کر بھاگنے لگے۔ لیکن افسوس کہ گاڑی میں نہ تو القاعدہ تھی اور نہ مہدی ملیشیا۔ اندر ایک چھوٹی عراقی فیملی تھی۔ ایک مرد ، اس کی بیوی اور ایک شیر خوار بچہ۔ اس فیملی کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ ٹریفک کی بھیڑ سے گھبرا کر اچانک روڈ پر نکل آئی ، اور اپنے ہی ملک ، اپنی ہی سر زمین اور اپنی سڑکوں پر غیروں کے ہاتھوں ماری گئی۔ شاہدین کا کہنا ہے کہ ماں اور بچے کی لاشیں پگھل کر آپس میں جڑ گئیں تھیں۔ بلیک واٹر کی اس اندھا دھند فائرنگ میں مزید 28 عراقی ہلاک ہوئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بہیمانہ حادثے میں اس طویل قافلے کے عَقب میں موجود لوگ بھی ہلاک ہوئے۔ عراقی وکیل حسن جبار کو اس واقعے میں پیٹھ پر چار گولیاں لگیں۔ وہ اپنی گاڑی میں قافلے کے پیچھے پیچھے چلے آ رہے تھے کہ اچانک کہیں دھماکے اور فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں۔ قافلہ رکا اور گوری چمڑی والے وحشی انگریزوں نے غصے کے عالم میں چلّا چلّا کر سب کو واپس جانے کے لیے کہا۔ تمام گاڑیاں واپس مڑیں اور ابھی کچھ ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ ان پر بھی فائر کھول دیا گیا۔ مشہورِ زمانہ کتاب ” بلیک واٹر “ کے مصنف جیریمی سیشل کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے بتایا کہ ” میں نے عورتوں اور بچوں کو گاڑیوں سے چھلانگ لگاتے اور رینگ کر محفوظ مقام تلاش کرتے دیکھا۔ میں نے ایک دس سالہ بچے کو منی بس سے بدحواسی کے عالم میں نکل کر بھاگتے دیکھا لیکن ایک گولی اس کے دماغ کو پھاڑتی ہوئی نکل گئی۔ اس کی ماں جو شور مچا کر اسے روکنے کی کوشش کر رہی تھی ، یہ منظر دیکھ کر چلّاتی ہوئی بس سے باہر نکلی مگر اسے بھی گولیوں سے بھون دیا گیا۔ “ ایک امریکی کی جان بچانے کے لیے معصوم انسانوں کو ذبح کرنے والے ان لوگوں کو دنیا بلیک واٹر کے نام سے جانتی ہے۔ امریکہ کے انسانی حقوق کے چارٹر مقبوضہ علاقوں میں سو رہے ہوتے ہیں ، وہ صرف اس وقت جاگتے ہیں جب کوئی امریکی یا یورپی مرتا ہے۔
ایک اور منظر دیکھیے۔ دسمبر 2006ء کی کرسمس کی رات بلیک واٹر سیکیورٹی کا ایک اہلکار اینڈریو مونن بغداد کے گرین زون میں منائی جانے والی ایک محفلِ شراب سے بد مست ہو کر نکلا ، واپسی کے لیے ایک غلط موڑ کاٹا اور اپنی دھن میں روانہ ہو گیا۔ مقبوضہ زمینوں پرفاتحین کا یہی انداز ہوتا ہے۔ نائب صدر عبدالمہدی کے محل کی حفاظت کرنے والا محافظ رحیم خلیف اسی رات بربریت سے قتل کر دیا گیا۔ ڈیوٹی کرنے والے دیگر محافظ جو اس واقعے کے عینی شاہد ہیں ، بتاتے ہیں کہ بلاوجہ گولیاں چلانے والا ایک سفید فام تھا جس کے سینے پر نمایاں بیج اس کا تعلق بلیک واٹر سے ثابت کر رہا تھا۔ وہ حیران تھے کہ ہمیں ” آزاد “ کروانے اور ہماری حفاظت کے آنے والے وحشیوں پر فائرنگ کی جائے یا نہیں۔ جب تک محافظ جوابی حملے کے لیے پوزیشن سنبھالتے ، وہ گاڑی میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔ عراقیوں کے لیے یہ عام واقعات ہیں جو روز ہی ان کے ارد گرد ہوتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ یہ نجی حفاظتی فوج ان کے ملک میں سزا سے مستثنی ہے۔
بلیک واٹر کو آپ تجارتی فوج کہہ سکتے ہیں جو شمالی کیرولائینا کے بنجر علاقے میں 1996ء میں وجود میں آئی۔ جس کا بنیادی مقصد نجی طور پر سیکیورٹی کے فرائض انجام دینے کے لیے فوجی تربیت فراہم کرنا تھا۔ اسے قائم کرنے والے بحریہ اور دیگر حربی افواج کے سابق اعلی عہدیداران تھے ، جنہوں نے اسے ایک ایسے پروجیکٹ کے طور پر شروع کیا ، جس کا فائدہ وہ آنے والے وقتوں میں اٹھا سکتے تھے۔ وہ وقت جب امریکہ کو بیرونی سیکیورٹی ذرائع سے معاہدہ کرنے کی ضرورت پیش آنے والی تھی۔ یہ پیش بندی کیسے کر لی گئی اور امریکہ جیسی بڑی قوت کو نجی فوجی ذرائع کی ضرورت کیوں پڑنے والی تھی ؟ اس سوال کا جواب آپ کو آگے مل جائے گا۔ اپنے قیام کے ایک عشرے بعد آج بلیک واٹر دنیا کی سب سے بڑی نجی فوج میں تبدیل ہو گئی ہے۔ جس کے پاس بیس ہزار تیار فوجی ، دنیا کی سب سے بڑی نجی فوجی چھاؤنی ، بیس جہازوں پر مشتمل فضائی فوج اور کئی گن شپ ہیلی کاپٹر ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ کی نام نہاد وار آن ٹیرر میں ایک کلیدی حیثیت اختیار کر جانے والی اس فوج کا سربراہ ایک سابق اعلی نیول آفیسر ” ایرک پرنس “ ہے ، جو ایک بنیاد پرست عیسائی ہے۔ نظریاتی طور پر وہ مالٹاکے ان کٹر عیسائی گروہوں سے وابستہ ہے جو آخری صلیبی جنگ میں صلاح الدین ایوبی ؒ سے شکست کھانے کے بعد ذلت و رسوائی کے باعث واپس یورپ نہیں گئے تھے بلکہ فلسطین کے ساتھ سمندر کے دوسری جانب جزائرِ مالٹا میں جا کر آباد ہو گئے تھے اور مسلمانوں سے ازلی دشمنی اور انھیں ختم کرنا ان کا مشن رہ گیا تھا۔ ایرک اپنے باپ کا کروڑوں ڈالر کا آٹو پارٹس بزنس سنبھال سکتا تھا مگر پھر وہ مسلمانوں کو ختم کرنے کی خواہش کیسے پوری کرتا ، لہذا اس نے نیوی جوائن کر لی۔ 1995ءمیں جب اس کے والد کا انتقال ہو گیا ،تو وہ مشی گن آ گیا اور نیوی کو خیر آباد کہہ دیا۔ پھر اس نے اپنی بہنوں کے ساتھ مل کر کمپنی کو بیچ ڈالا اور اپنے حصے کی رقم سے بلیک واٹر یو اے ایس کی بنیاد ڈالی۔ 1990ء کے عشرے میں اس کے خاندان کے افراد کا شمار بڑے بڑے بینکاروں میں ہوتا تھا اور ایرک بذاتِ خود سابق صدر بش اور اس کے ساتھیوں کومالی مدد فراہم کرنے والا ایک نمایاں شخص تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام ، تاجر ذہنیت اور عالمی دہشت گردی کے خالق امریکہ کے لیے جنگ ایک منافع بخش کاروبار بن گئی ہے اور بلیک واٹر کی بنیاد بھی اسے لیے رکھی گئی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث ایک نئے کاروبار کی راہیں مستکم ہونے والی تھیں۔ یہ نہ صرف کارپوریٹ کلچر کے لیے ڈالر کمانے کا نیا انتظام تھا بلکہ واشنگٹن کے لیے جنگی مسائل سے بچنے کا حل اور امریکی استعمار کے نئے چکر کا آغاز بھی تھا۔ یعنی ایسی منصوبہ بندی کی گئی کہ ایک تیر سے تین شکار کھیلے جائیں۔ آئیے کچھ شواہد کا جائزہ لیں۔
2001ء میں سرکاری معاہدے کے تحت بلیک واٹر کے پاس ایک ملین ڈالر سے بھی کم کا بزنس تھا۔ لیکن ڈرامائی طور پر یہ کمپنی اب تک ایک بلین ڈالر سے بھی زیادہ کا منافع سمیٹ چکی ہے۔ کیونکہ زیادہ تر کنٹریکٹ بغیر بولی لگوائے اسے عنایت کر دیے جاتے ہیں۔ 2007ء میں جب عراق میں دو بہت بڑے واقعات منظرِ عام پر آئے اور بلیک واٹر پر سخت نکتہ چینی کی جارہی تھی ، عین انھی دنوں میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کمپنی سے 92 ملین ڈالر کا معاہدہ کیا۔ اس سے پہلے اگست 2003ء میں اسے 21 ملین ڈالر کا کنٹریکٹ ملا۔ وہ امریکی استعمار جسے نجی سرمایہ داری اور منافع خوری سے عشق ہے ، وہاں لوگوں کا قتل کرنے والی بین الاقوامی مشینری اب تجارتی ہاتھوں میں پہنچ چکی ہے۔ لہذا جوں جوں وقت گزرتا جائے گا ، بلیک واٹر کی سنگ دلی ، بے رحمی اور سفاکی کی داستانیں بکھرنے لگیں گی۔ امریکہ اس وقت پوری دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا ڈیلر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2008ء میں اس نے ترقی پذیر ممالک کو 37.8 بلین ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا ، دوسرے نمبر پر اٹلی تھا جس نے صرف 3.7 ڈالر کا اسلحہ بیچا۔
قارئین ! پہلے اور دوسرے نمبر کے درمیان فرق دیکھئے تو اندازہ ہو گا کہ اسلحہ بیچنا امریکہ کے لیے کتنا فائدہ مند ہے۔ اسلحہ کی اس بڑی تعداد کو کھپانے کے لیے ظاہر ہے نئی جنگیں شروع کرنے اور تازہ محاذ کھولنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس سال منظرِ عام پر آنے والی رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ میں امریکی حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے امریکہ وال اسٹریٹ کو سات سو بلین ڈالر دینے کے بجائے ایک بڑا عالمی محاذ کھول دے تا کہ اس کی فیکٹریاں دن رات اسلحے کی ترسیل میںلگ جائیں۔ یہ تفصیلات جاننے کے بعد آئیے ایک دلچسپ بات بتاتا ہوں۔ 22 ستمبر 2007ء کو یہ بات دنیا کے سامنے آئی کہ بلیک واٹر کے ملازمین نے عراق میں کچھ اسلحہ غیر قانونی طور پر بیچا ہے جو بعد ازاں ممکنہ طور پر کردستان ورکرز پارٹی PPK کو پہنچا تھا۔ یاد رہے کہ PPK کو امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ ایک طرف تو امریکہ دنیا بھر میں تنظیموں پر پابندیاں لگا کر یہ جتانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ خطرناک ہیں اور پھر انھی کو دیگر ذرائع سے اپنا اسلحہ فروخت کر کے ڈالر بھی کماتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ انھیں مضبوط کرکے وہ آنے والے وقتوں میں دیگر ممالک پر حملہ کرنے کا جواز بھی ڈھونڈ لیتا ہے۔
بلیک واٹر تو ایک سیکیورٹی کمپنی ہے جو ان امریکی عہدیداروں کی حفاظت پر مامور ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث ایسے علاقوں میں مصروفِ عمل ہیں جوحفاظتی نقطۂ نگاہ سے سیکیورٹی زون کہلاتے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بہت واضح ہے کہ ان کا کام دفاعی نوعیت کا ہے لیکن بلیک واٹر کی دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ اب تک ان کے خلاف جتنی بھی رپورٹیں سامنے آئی ہیں ، ان میں سے 95 فیصد میں انھوں نے گولی چلانے میں پہل کی اور یوں ہمیشہ بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ جبکہ سینکڑوں معصوم لوگ چپ چاپ ہی موت کی نیند سو جاتے ہیں اور ان کا کوئی ایسا وارث نہیں ہوتا جو صدائے احتجاج بلند کرے۔ ایسی بستیوں میں جہاں دہشت کے ناگ پلتے ہوں اور موت انسان کی بنیادی ضروریات کی طرح بانٹی جاتی ہو ، وہاں کون روئے ، کون چیخے چلّائے اور اگر ماتم کرے بھی تو کتنا؟ کہ یہ تو روز کا نہیں صبح و شام کا کھیل ہے۔ اپنوں کے لاشے اٹھاتے اٹھاتے ایک ایسا وقت آتا ہے کہ یا تو انسان غیظ وغضب کے سارے سورج نگل کر ظالموں پر ٹوٹ پڑتا ہے یا پھر مردہ اعصاب کے بوجھ تلے دب کر موت کا انتظار کرتا ہے ، روتا ہے ، کراہتا ہے اور چاہتا ہے کہ اسے بھی جلد مار دیا جائے۔ بلیک واٹر کے کرائے کے فوجی کتنے بے حس اور ظالم ہیں اس بات کا اندازہ عام آدمی کبھی نہیں لگا سکتا۔ وہ کاؤ بوائے کی طرح کا رویہ رکھتے ہیں ، جن کی انگلیاں بندوقوں کی لبلبی دبانے کے لیے بے قرار رہتی ہیں۔ انسانوں کی موت ان کے لیے سکون کا باعث ہے اور وہ بے قصور لوگوں کو مار کر انجوائے کرتے ہیں۔ عراق میں ایسے بے شمار واقعات ہو چکے ہیں جن میں بلیک واٹر کے سیاہ ناگوں نے اپنی گاڑیوں کے پیچھے یا دائیں بائیں آنے والی گاڑیوں پر بس یونہی فائرنگ کر دی۔ ڈرائیور کو گولی لگی اور اس نے گاڑی درخت میں دے ماری۔ اندر بیٹھے دیگر افراد جان بچانے کے لیے بھاگے تو وہ بھی یکے بعد دیگرے خون میں لت پت ہو کر ٹھیلوں سے ٹکراتے ، فٹ پاتھوں پر گرتے مارے گئے۔ یو ٹیوب پر ایسی بہت سی ویڈیوز دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ ان وحشی کرائے کے قاتلوں کے کارنامے ہیں ، جنھیں دنیا بلیک واٹر یا ژی سروسز کے نام سے جانتی ہے اور جو عراق ، افغانستان ، فلپائن اور دیگر ممالک میں دہشت کی علامت ہیں۔ یہ وہ فوجی ہیں جن کی ٹریننگ اس پر تشدد انداز میں ہوتی ہے کہ وہ عام انسانوں کی فہرست سے نکل کر سفاک اور وحشیانہ حد تک تشدد پسند ہو جاتے ہیں۔
ماضی میں امریکہ کرائے کی ان نجی فوجوں کو صرف انتہائی خفیہ آپریشن کے لیے استعمال کیا کرتا تھا ، مگر اب امریکی امپیریلزم کی وسعت کے لیے ہر جگہ ان کا استعمال کیا جارہا ہے ، جس نے انتہائی سنگین صورتحال پیدا کر دی ہے۔ یہ ایک ایسی پرائیوٹ تنظیم ہے جو اپنے آپ کو ان تمام قواعد و ضوابط سے بالا سمجھتی ہے ، جو سرکاری تنظیموں پر لاگو ہوتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ CIA کو بھی کسی نہ کسی کے سامنے تو جوابدہ ہونا ہی پڑتا ہے ،کہ پیسہ کہاں سے آیا اور کہاں گیا۔ لیکن یہ تنظیم کارپوریٹ کلچر کا حصہ ہے۔ اس لیے نہ ان پیسوں کا حساب دینے کی روادار ہے اور نہ ہی اپنی خفیہ سرگرمیوں کی کسی کو بھنک پڑنے دیتی ہے۔ کچھ سال پہلے بش حکومت کے اہم رکن ڈک چینی نے اس بات کو ناگزیر قرار دیا تھا کہ جو بھی امریکی عراق میں ڈیوٹی کے لیے تعینات کیا گیا ، وہ عدالتی چارہ جوئی سے مستثنی ہو گا۔ یاد رہے یہ بات فوج کے لیے نہیں بلکہ ” امریکی “ کے لیے کہی گئی تھی۔ کیونکہ فوج کو تو بہرحال جنیوا کنونشن اور دیگر قوانین کی پابندی کرنا ہی پڑتی ہے۔ اب سمجھ میں آتا ہے کہ وہ کس چیز کا حصول چاہتے تھے۔ امریکی بھاڑے دار فوج کا تحفظ۔ یہی وجہ ہے کہ بلیک واٹر قابو سے باہر ہو گئی ہے۔ اسے جو ختیارات حاصل ہیں اس کا کچھ اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے جس میں بلیک واٹر کے ارکان نے امریکہ ہی کے فوجیوں کو شک کی بنیادپر بکتر بند گاڑی ” ہموی “ سے اتار کر بغداد کی سڑک پر لٹا دیا ، ان کے ہتھیار چھین لیے اور انھیں زدو کوب کرتے ہوئے دیر تک زمین پر لٹائے رکھا۔ کتاب ” کارپوریٹ وارئیر “ کے مصنف پیٹر سنگر نے لکھا ہے کہ ایک نجی فوجی کمپنی کے مقابلے میں ایک سرکس کے مالک کو بھی شاید زیادہ قوانین اور معائنے کا پابند ہونا پڑتا ہو گا۔ اسی طرح یو ایس جوائنٹ فورس کے مشیر بریگیڈیئر جنرل کارل ہورس کا بیان بھی ریکارڈ پر ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ” یہ لوگ آپے سے باہر ہو گئے ہیں اور جاہلانہ حرکتیں کر رہے ہیں۔ ان کے اوپرکوئی مجاز اتھارٹی نہیں ہے۔ لہذا جب یہ لوگ بے رحمانہ طاقت کا استعمال کرتے ہیں تو آپ ان پر نازل ہو کر انھیں روک نہیں سکتے۔ وہ لوگوں کو گولیوں سے اڑا دیتے ہیں اور نتائج دوسروں کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ ہر جگہ یہی ہوتا ہے۔ “ پچھلے دنوں کابل میں قائم امریکی سفارت خانے کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی کمپنی کے اہلکاروں پر سفارت خانے کے اندر شراب پینے ، غیر اخلاقی حرکات کرنے اور جسم فروشوں کو عمارت کے اندر لانے کے الزامات عائد کئے گئے۔ ان کی یہ حرکتیں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ان کی ہٹ دھرمی ، طاقت اور قانون کی خلاف ورزی کا یہ عالم ہے کہ سفارت خانے کے حکام کو مطلع تک نہ کیا گیا۔ افغان تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ گلی کوچوں میں امریکی فوج اور نجی گارڈز کی بد اخلاقی کے واقعات عام ہیں۔ لیکن اب سفارتخانے میں اس طرح کا واقع امریکہ کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ جنوبی افریقہ کے وزیر دفاع موسیوؤ لیکوٹا بھاڑے دار فوج کو ایک ایسا کوڑا کہتے ہیں ، جو غریب ممالک خصوصا افریقہ پر برس رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خریدے ہوئے قاتل ہیں۔ یہ اپنی صلاحیت سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو بیچ دیتے ہیں۔ جن کے پاس پیسہ ہے وہ انھیں خرید سکتے ہیں اور ان انسانوں کو قتل کرنے والی مشین میں تبدیل کر سکتے ہیں۔
قارئین ! اس وقت کوئی بھی پاکستانی اس بات سے ناواقف نہیں ہے کہ یہ تنظیم اب پاکستان پہنچ کر تیزی سے اپنے پنجے گاڑ رہی ہے۔ راقم نے پورے پس منظر کے ساتھ اس کمپنی کے وجود اور اس کے مضمرات کی تفصیل اس لیے بیان کی ہے کہ ہردردمند پاکستانی کو آنے والے خطرے اور طوفان کی جھلک چشم تصور میں دکھائی دے سکے۔ انسانیت کو کیڑے مکوڑوں سے زائد اہمیت نہ دینے والے یہ لوگ کالے شیشوں والی مہنگی اور جدید ترین بلٹ پروف گاڑیوں میں سوار ، سیاہ چشمے لگائے اور سیمی آٹو میٹک M4 مشین گنوں سے مسلح ہو کر جب پاکستان کی سڑکوں پر واویلا مچاتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ جیمز بونڈ 007 کی کسی فلم کا ٹریلر چل رہا ہے۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ استعمال ہونے والی ان کاروں کی کم از کم قیمت 50 ہزار امریکی ڈالر ز سے شرو ع ہوتی ہے۔ یہاں بلیک واٹر کے لوگ جس تنظیم کے نام سے آئے ہیں وہ کری ایٹو ایسوسی ایٹس ہے ، جو بظاہر قبائلی علاقوں میں ترقیاتی کام کروانے کے لیے مصروفِ عمل ہے۔ قبائلی علاقے اور ترقیاتی کام کا سن کر ویسے ہی ہنسی آ جاتی ہے۔ جس ملک کے سب سے ترقی یافتہ اور معاشی مرکز کہلانے والے شہر میں کئی بچوں سمیت اٹھارہ خواتین راشن کے ایک تھیلے کے حصول میں موت کی مٹی کے نیچے دب مرتی ہوںاور جہاں روز چینی کی تلاش میں لوگ ایک دوسرے کا گریبان پھاڑ دیتے ہوں ، وہاں کے دور افتادہ ڈرون زدہ علاقوں میں ترقیاتی کام کروائے جائیں گے اور وہ بھی امریکی کمپنی سے۔ واہ کیا کہنے ! بے وقوف بنانے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ یوں تو امریکی فوجیوں کی یہاں آمد طویل عرصے سے جاری ہے۔ بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ امریکہ کے CIA کا سب سے بڑا اڈا پاکستان میں موجود ہے۔ مگر اب اس تنظیم کی خامہ فرسائیاں نئے شکوک کو جنم دے رہی ہیں۔ یوں تو میڈیا کے شور مچانے پر کچھ دن پیشتر ان ناجائز امریکیوں کے خلاف کاروائی بھی کی گئی۔ لیکن جو لوگ اس آزادی سے یہاں آ کر ہمارے ہی گلی کوچوں میں دہشت مچا سکتے ہیں ، گلیوں میں تجاوزات کھڑی کر کے راستہ بند کر سکتے ہیں اور عام پاکستانیوں کو اسلام آباد جیسے شہر میں زدو کوب کر سکتے ہیں ، کیا وہ کسی پشت پناہی کے بغیر اتنی دیدہ دلیری کے ساتھ یہاں سرگرم ہو سکتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب واضح طور پر نفی میں آتا ہے۔ امریکہ نہ صرف سفارت خانے کی غیر قانونی توسیع میں مصروف ہے بلکہ اس نے تربیلا کے قریب ایک بہت بڑا قطعۂ ارضی بھی خریدا ہے ، جہاں اس وقت بیس بڑے بڑے کنٹینر پہنچا دئیے گئے ہیں ، جن کے حجم کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ ان میں کئی ٹینک چھپائے گئے ہیں۔ اسلام آباد میں خریدے جانے والے دو سو گھروں کے بارے میں بھی یہی اطلاعات ہیں کہ یہاں بلیک واٹر کے کارندے ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں یا جمائیں گے۔ لیکن حکومت کی طرف سے کوئی صاف موقف سامنے نہیں آ رہا۔ پشاور کے علاقے یونیورسٹی ٹاؤن ، چنار روڈ ، حیات آباد اور شامی آباد میں متعدد بنگلے اور ورکس کے علاقے میں زمین کا بڑا رقبہ کرائے پر حاصل کیا گیا ہے۔ ان دفاتر کے قریب سے گزرنے والے افراد پر بندوقیں تان لی جاتی ہیں اورباقاعدہ تلاشی لی جاتی ہے۔ پاکستانی اپنے ہی ملک میں بے امان ہو جانے کا کرب سہنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اسلام آباد میں بھی صورتحال مختلف نہیں۔ وہاں محسن بخاری نامی شخص کو غیر ملکیوں نے سرِراہ تشدد کانشانہ بنایا اور کئی مرتبہ پولیس سے بھی ان کالے کرتوت والوں کی مُڈ بھَیڑ ہو چکی ہے۔ پورٹ قاسم پر اترنے والی انتہائی حساس ، جدید ہتھیاروں سے لیس بکتر بند ہموی گاڑیوں کی تصاویر تو عالمی میڈیا کی زینت بن ہی چکی ہیں۔ ان گاڑیوں کے یوں خاموشی سے پاکستان اترنے کے کیا معنی ؟ عوام کے ذہنوں میں کئی سوالات اٹھ رہے ہیں لیکن حکومت خاموش ہے۔ ملک میں امریکی اثر و رسوخ خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ ٹرپل تھری بریگیڈ کے سابق سربراہ میجر جنرل (ر) راحت لطیف نے اپنے حالیہ انٹرویو میں ایک حیرت انگیز انکشاف کیا ہے کہ اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل کے آخری فلور پر CIA کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تھا ، جہاں سے وہ ڈرون طیاروں کو کنٹرول کرتے تھے۔ دھماکے کے بعد جب یہ خدشہ پیدا ہوا کہ ان کی ٹیکنالوجی منظرِ عام پر آ سکتی ہے اور حکومتی رِٹ کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ سکتا ہے ، تو انھوں نے کیمکل ڈال کر آگ لگا دی جس سے سب کچھ جل گیا۔
قارئین ! آپ کو یاد ہو گا کہ جب میڈیا اس واقعے کی کوریج کر رہا تھا تو کئی نجی ٹیلی ویژن چینلز نے عمارت کے بالائی حصوں میں ایک رنگین آگ جلتی ہوئی دکھائی تھی جس کی بظاہر کوئی وجہ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو جنرل راحت کے بیان میں کافی وزن محسوس ہوتا ہے۔
افسوس کہ ان تمام حالات میں پاکستانی قیادت تو ٹال مٹول سے کام لیتی رہی لیکن چین سے یہ سب کچھ برداشت نہیں ہوا اور اس کے سفیر لوژاؤ ہوئی نے پریس کانفرنس میں امریکہ کو براہِ راست مخاطب کرکے اسے ایک واضح پیغام دے ڈالا۔ امریکیوں کی سرگرمی کی وجہ سے پاکستان امریکہ کی کالونی بنتا نظر آ رہا ہے اور یہ چین کے لیے خطرات پیدا کر رہا ہے۔ چین خطے کی سب سے بڑی طاقت ہے اور امریکہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اگر آج چین ہاتھ کھینچ لے تو امریکہ کا بھٹہ بیٹھ جائے گا کیونکہ امریکہ چین کا ایک ہزار بلین ڈالر کا مقروض ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ فرینڈلی اپوزیشن سمیت تمام حکومتی ذمہ داروں کی زبانیں گنگ ہیں اور ادھر چین ہے جس نے بیان دے کر اپنا پورا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈال دیا ہے تاکہ دنیا کو علم ہو جائے کہ پاکستان بے یارو مددگار نہیں ہے۔ چین پاکستان کے طول وعرض میں سب سے زیادہ ترقیاتی پروجیکٹس کر رہا ہے۔ پاکستان کے دفاع میں چین کے احسانات کا کوئی حساب نہیں۔ ابھی پچھلے ہی دنوں پاک بحریہ کے لیے پہلی F-22 پی فریگیٹ چین سے حاصل کی گئی ہے۔ کئی چینی انجینئرز کے قتل کے باوجود اس وقت بھی دس ہزار سے زائد انجینئرز یہاں کام کر رہے ہیں۔ اس سب کچھ کے باوجود چین کو تو یہاں اپنے لوگوںکی حفاظت کے لیے بلیک واٹر کی ضرورت نہیں پڑی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ چینی سفیر کے بیان کے بعد قوم نے سکون کا سانس لیا ہے کیونکہ اس سے امریکہ کو یہ صاف پیغام دیا گیا ہے کہ کہ اگرپاکستان کو کوئی نقصان پہنچا تو پھر چین ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھا رہے گا۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی مخدوش صورتحال پر چینیوں نے چلّانا شروع کر دیا ہے اور ہم ” پاکستان میں بلیک واٹر کا کوئی وجود نہیں “ جیسے بیان دیکر قوم کی آنکھوں میںدھول جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کسی قوم کے لیے اس سے زیادہ دکھ کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کا مقدمہ دوسرے لڑیں اور وہ خود تماشائی بنی رہے۔ اس کے ملک میں قابض افواج اتر رہی ہوں اور اس کا میڈیا ” میرا “ کے نکاح پر مسالے دار مباحثے کرا رہا ہو۔ اس کے لوگ آٹے اور چینی کے پاؤں تلے کچلے جا رہے ہوں اور اس کے سربراہ امریکہ میں عید منا رہے ہوں۔
اے اہلِ وطن ! اب بھی وقت ہے کہ ہم رویت ہلال کے جھگڑوں کو ترک کر دیں ، انتہا پسندی اور روشن خیالی کی بحثوں سے باز آ جائیں ، اپنے نوجوانوں کو ایس ایم ایس کے عذاب سے باہر نکال لیں ، اعلی کردار کے حصول پر توجہ دیں ، کتابوں سے ناتا جوڑ لیں اور علم و عمل کو اپنا وطیرہ بنا لیں ورنہ :
وقت اس طرح بدل دے گا تمھارے خدوخال
اپنی تصویر بھی دیکھو گے تو ڈر جاؤ گے
(بشکریہ روزنامہ امت کراچی جمعرات 24 ستمبر 2009ء ، ذیشان یاسین zee_yaseen@yahoo.com)