بہ سلسلۂ اداریہ: کیا مرجئہ طے کریں گے کہ تکفیری کون ہیں۔ حصہ دوم
ب: بیداریِ نو اور ’مرجئہ‘ و ’خوارج‘ کا ڈائلیکٹ!
حامد کمال الدین
’مرجئہ‘ کا لفظ ’اِرجاء‘ سے ہے جس کا مطلب ہے: مؤخر کر دینا، پیچھے ہٹا دینا۔ سورۃ التوبۃ میں یہ لفظ ’مؤخر کیا جانے‘ کے معنی میں آیا ہے: وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللّهِ (التوبۃ: 106) اسلامی تاریخ میں علمائے سنت نے یہ لفظ یعنی ’مرجئہ‘ اُس فکری انحراف کے حاملین کیلئے بولا جو مسلمان ہونے کیلئے آدمی کے محض ’دعوائے ایمان‘ کو کافی جانتا ہے اور ’حقیقتِ ایمان‘ کو پیچھے رہنے دیتا ہے؛ نہ کبائر پہ اصرار کرنے والے کو فاسق مانتا ہے اور نہ افعالِ کفر پہ اصرار کرنے والے کو کافر۔ ایمان دراصل ایک حقیقت ہے نہ کہ محض ایک دعویٰ۔ اسلامی تاریخ میں ’مرجئہ‘: پس وہ فرقہ رہا ہے جو ایمان کی تعریف سے ایمان کی حقیقت کو ہٹا دیتا ہے اور صرف ایمان کے دعویٰ کو ہی ایمان کے معتبر ہونے کیلئے کافی گردانتا ہے۔ اہلسنت کے نزدیک ایمان کا دعویٰ معتبر ضرور ہے لیکن اگر اس انسان کے معمولات میں وہی کام اور وہی باتیں شامل ہیں جنہیں خدا کی کتاب یا اُس کے نبی کی سنت ’کفر‘ یا ’شرک‘ قرار دیتی ہو تو تب اعتبار اُس کے دعوائے ایمان کا نہیں بلکہ اُس کے اس فعل کا ہو گا جسے کتاب و سنت میں کفر یا شرک ٹھہرایا گیا تھا۔ اب اِس صورت میں کہ جب اُس سے افعالِ شرک ظاہر ہونے لگے ہیں، جبکہ کلمۂ طیبہ اسے اِن افعالِ شرک سے روکنے کیلئے ہی دنیا میں آیا تھا، لہٰذا ایسے شخص کی ’کلمہ گوئی‘ کا بھی علمائے توحید و سنت کے نزدیک اب کوئی اعتبار باقی نہیں رہا۔ ’کلمہ گو‘ ہونے کا اعتبار اُس وقت تک ضرور تھا جب تک اُس سے کفر اور شرک پر مبنی افعال ظاہر نہیں ہوئے تھے مگر اب کفر اور شرک کا وتیرہ اختیار کر کے اُس نے جس چیز کو سب سے پہلے توڑ ڈالا وہ اس کا ’کلمہ‘ ہی ہے جو آیا ہی اِس لئے تھا کہ وہ اسے رب العالمین کے ساتھ کفر یا شرک کا وتیرہ اختیار کر رکھنے سے روکے۔ اب جب اُس نے شرک کر لیا ہے تو یہ ”کلمہ“ جو اسے شرک سے باز رکھنے آیا تھا، اب اس کے خلاف نالش کرے گا نہ کہ اس کا دفاع۔
مگر خدا کی تعظیم اور اُس کے حق کو نہایت بڑا جاننے کے ساتھ ساتھ، اہل سنت چونکہ انصاف سے بھی دامن کش نہیں ہوتے اور مخلوق پر رحم اور ترس کھانے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔۔۔۔ لہٰذا کسی شخص سے کوئی ایسا فعل اور وتیرہ سرزد ہو جائے جو کفر اور شرک کے زمرے میں آتا ہو تو بھی وہ اُسے اِس بات کا عذر دیتے ہیں کہ کفر یا شرک کا وہ فعل اُس سے لا علمی میں ہو گیا تھا، یا وہ کسی علمی اور فکری الجھن میں گرفتار ہو کر وہ کام کر بیٹھا تھا، یا کسی ظالم کے قہر اور جبر تلے اُس نے اُس فعل کا ارتکاب کر لیا تھا۔ یہ تینوں باتیں اہل سنت کے نزدیک کسی شخص کی تکفیر ہونے میں مانع ہیں۔ پہلی بات کو اصطلاح میں ’جہل‘ کہا جاتا ہے، دوسری کو ’تاویل‘ اور تیسری کو ’اِکراہ‘۔ اِن تینوں کو اہل سنت کی اصطلاح میں ’موانعِ تکفیر‘ کہا جاتا ہے۔ لہٰذا ایسا نہیں کہ مرجئہ کوئی اہل سنت سے بڑھ کر مخلوق پر مہربان ہیں؛ معاملہ یہ ہے کہ اہل سنت مرجئہ یا دنیا کے کسی بھی طائفہ سے بڑھ کر خالق کے حق کی تعظیم اور خالق کے مرتبہ و مقام کی پاسبانی کرتے ہیں۔
غرض اسلام کی تاریخ میں ’مرجئہ‘ وہ گروہ ہے جس کا پورا زور اِس بات پر رہا ہے کہ عمل سے چاہے کوئی شخص خدائے رب العالمین کی کتنی ہی بڑی بغاوت کرے اور کیسا ہی وہ مالک الملک کے ساتھ شرک اور کفر کرے، زبان سے بس اگر وہ اسلام کا دعویٰ کرتا ہے تو لازماً اُس کو ایمان کا سرٹیفکیٹ دے رکھا جائے۔ دوسری انتہا پر ایک دوسرا گمراہ فرقہ رہا ہے جو خدا کے حق کی تعظیم میں افراط کرتے ہوئے یہ مسلک رکھتا تھا کہ جس شخص سے بھی کوئی کبیرہ گناہ سرزد ہو جائے بس وہ دائرۂ ایمان سے خارج ہو جاتا ہے؛ اِس دوسری انتہا پر پائے جانے والے فرقہ کو ’خوارج‘ کہا گیا۔ مرجئہ اور خوارج کے بیچ، وسط اور اعتدال کی راہ پر، اہل سنت تھے جن کا اعتقاد ہے کہ: ہر کبیرہ گناہ ہو جانے سے تو آدمی دائرۂ ایمان سے خارج نہیں ہوتا؛ صرف گناہگار ٹھہرتا ہے، البتہ ایسے کبائر جنہیں خود اللہ اور اُس کا رسول ہی کفر اور شرک قرار دیں اُن کے ارتکاب سے ضرور آدمی دائرۂ ایمان سے خارج ہو جاتا ہے، بشرطیکہ: (1) آدمی کو اگر کوئی لا علمی تھی تواُس کی وہ لا علمی دور کر دی گئی ہو، (2) وہ اگر کسی فکری الجھن یا ذہنی پیچیدگی کا شکار تھا تو اہل علم کی جانب سے وہ الجھن یا پیچیدگی بھی بدرجۂ اتم زائل کر دی گئی ہو(1)، اور (3) اِس بات کو بھی یقینی بنا لیا گیا ہو کہ کفر کے اُس فعل کا ارتکاب کرنے میں وہ کسی ظالم کے قہر و جبر کے زیر اثر نہ تھا۔۔ جبکہ خوارج تکفیر کی اِن شرطوں کو نہ مانتے تھے۔ علاوہ ازیں، خوارج بہت سے ایسے افعال کو بھی کفر قرار دیتے تھے جو کفر نہ بنتے تھے، مثلاً کبائر۔ مزید برآں، خوارج اجتہادی اختلاف کو بھی کفر پر محمول کرتے۔
چنانچہ اِس موضوع پر صدیوں سے مسلمانوں میں یہ تین طرزِ فکر پائے جاتے تھے: ایک خوارج کا طرزِ فکر، دوسرا مرجئہ کا اور تیسرا اہل سنت کا۔ جیسا کہ آپ دیکھ چکے، خوارج ایک انتہا پر تھے تو مرجئہ ایک دوسری انتہا پر، جبکہ وسط میں اہل سنت۔ ایضاحِ مطلب کی خاطر، کچھ دیر کیلئے یوں کہہ لیجئے: خوارج مشرق میں، تو مرجئہ مغرب میں، تو اہل سنت وسط میں۔ (یہی حیثیت اہلسنت کو اور بہت سے امہات المسائل میں دیگر انتہا پسند فرقوں کے مابین حاصل رہی ہے)۔ اب ہوا یوں کہ جو لوگ ’مشرقی انتہا‘ پر تھے وہ اہل سنت کی جانب اشارہ کرتے تو اُنکی انگلی مغرب کی جانب اٹھتی؛ یوں وہ اہل سنت کو ’مرجئہ‘ کے ساتھ ملاتے۔ ’مغربی انتہا‘ پر پائے جانے والے لوگ انہی اہلسنت کی جانب اشارہ کرتے تو اُنکی انگلی مشرق کی جانب اٹھتی، یوں وہ انہیں ’خوارج‘ کے ساتھ ملاتے۔ واقعتا معاملہ اِس لحاظ سے کچھ ’پیچیدہ‘ تھا، کہ خوارج کیلئے صرف اور صرف ’مشرق‘ ہی کی طرف اشارہ ہو سکتا تھا کسی اور طرف کو ممکن ہی نہ تھا اور مرجئہ کیلئے صرف اور صرف ’مغرب‘ ہی کی طرف اشارہ ہو سکتا تھا کسی اور طرف کو ممکن ہی نہ تھا؛ جبکہ اہلسنت کیلئے دونوں طرف سے اور دونوں طرف کو اشارہ ہو سکتا تھا! حقیقت یہ ہے اہلسنت کی جانب ہر طرف سے اشارہ ہو سکتا ہے، دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ اشارہ کرتے وقت خود آپ کہاں کھڑے ہیں! واقعتا یہ اِسی قدر ایک جامع منہج ہے! ”علم“ اور ”عدل“ اہلسنت کا ایک مرکزی ترین وصف ہے؛ اور اِس وصف کو نبھانے کیلئے اِن سب جہتوں کو ساتھ چلانا ضروری تھا۔ جبکہ اہل بدعت یا تو وحی کے علم سے تہی دامن ہوں گے اور یا وحی کے فہم سے اور یا دونوں سے؛ جس کے باعث وہ یا خالق کے حق میں ظلم کریں گے اور یا مخلوق کے حق میں اور یا دونوں کے حق میں۔
سامنے کی بات ہے کہ خوارج کا طرزِ فکر اپنی شدت اور سخت گیری کے باعث امت کے اندر بہت زیادہ پزیرائی نہ پا سکتا تھا، لہٰذا ابتدائی صدیوں کے بعد جیسے جیسے ہمتیں ڈھیلی پڑتی گئیں خوارج والی گمراہی کی مانگ تو امت کے اندر بہت زیادہ باقی نہ رہی۔ البتہ مرجئہ کا مذہب تو جیسے بنا ہی انحطاط کی صدیوں کیلئے تھا! جو جی میں آئے کریں، مگر ایمان آپ کا پکا اور کھرا، اور جو آپ کے کردار اور عمل کی روشنی میں، خصوصاً آپ کے ہاں افعالِ شرک پا کر، آپ کے ایمان کی بابت سوالیہ نشان کھڑا کرے الٹا وہ شخص ہی خارجی اور صاحب بدعت! پس طبعی بات تھی کہ جیسے جیسے امت کی صفوں میں انحطاط بڑھتا، ویسے ویسے فکرِ ارجاءکا غلغلہ ہوتا۔ امت کو لوریاں دے دے کر سلانے میں اور شرعی نصوص کے ایک کثیر ذخیرہ کے ساتھ امت کے بد عقیدہ و بد عمل طبقوں کی ڈھارس بندھانے اور ان کی تمام تر بد عملی و ترکِ جہاد کے باوجود ان کو جنت کی امید لگوا رکھنے میں جو کردار فکرِ ارجاءکا رہا وہ کسی اور فکر کا تھا اور نہ ہو سکتا تھا۔ یہ فرقہ دلائل کا پورا ایک انبار اِس بات کو نہایت ’علمی‘ بنیادوں پر ثابت کرنے کیلئے رکھتا تھا کہ ایک ’کلمہ گو‘ آدمی کو جہنم کے خوف میں مبتلا کر رکھنا خوامخواہ ’یاروں کا فسانہ‘ ہے اور ’قصہ گوؤں‘ کی اختراع! یہ فرقہ کچھ نہایت فلسفیانہ بنیادوں پر عوام الناس پہ ثابت کر سکتا تھا کہ ’ایمان‘ جس چیز کا نام ہے اُس کیلئے ’عمل‘ کا ہونا سرے سے ضروری نہیں؛ اس کے نزدیک عمل اور جہاد اگر ہو جائے تو کچھ حرج کی بات نہیں البتہ جنت جس چیز کا انعام ہے وہ ہے خدا اور رسول کو سچا مان لینا اور جہنم جس چیز کی پاداش ہے وہ ہے خدا اور رسول کو جھٹلا دینا، اور یہ کہ ’ایمان‘ اور ’کفر‘ محض ’تصدیق‘ اور ’تکذیب‘ کا جھگڑا ہے، ’عمل‘ اور ’کردار‘ سے اِس کا بھلا کیا تعلق؟! مسلم معاشروں کو اپنے دورِ تنزل میں، اپنے یہاں پائی جانے والی بے عملی، بداعتقادی اور اخلاقی گراوٹ پر ڈھارس پانے کیلئے، مرجئہ افکار سے بڑھ کر بھی بھلا کوئی نعمت ہاتھ آ سکتی تھی؟ کہاں وہ حالت کہ عمل اور جہاد کا نقطۂ عروج تھا پھر بھی شہادتوں کی داستانیں رقم کرنے والے اُن اصحابِ ایمان کو قرآن إِلاَّ تَنفِرُواْ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلاَ تَضُرُّوهُ شَيْئًا(2) ایسی نصوص کے ساتھ مبتلائے فکر رکھے ہوئے تھا اور کہاں بدعملی، عقائدی انحراف اور اخلاقی زبوں حالی کی یہ انتہا جس پر إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ(3) اور لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا(4) اور مَن قَال لا اِلٰہ اِلا اللہ دخل الجنۃ(5) ایسی بشارتوں(6) کے علاوہ کوئی کچھ سننے اور سنانے کا روادار ہی نہ تھا! چنانچہ اِرجاءاس دورِ انحطاط کا لازمہ ہی نہیں تھا، حق یہ ہے کہ ارجاءخود اِس انحطاط کو پیدا کر دینے اور بالآخر امت کی لٹیا ڈبو دینے کے پیچھے ایک بہت بڑا عامل تھا؛ یعنی ارجاء ہی اِس انحطاط کو پیدا کر رہا تھا اور پھر ارجاءہی اِس انحطاط کے نتیجے میں یہاں زیادہ سے زیادہ پیدا ہو رہا تھا(7)۔ یوں یہ ایک ایسا خود کار عمل ٹھہرا جس میں آگے چل کر بے تحاشا تیزی آتی۔ چنانچہ بالکل آخری صدیوں میں جا کر امت کے اندر ’ارجاء‘ کی جو بے تحاشا افزائش ہوئی وہ ایک تاریخی واقعہ ہے، یہاں تک کہ مسلم معاشرے ایک پکے پھل کی طرح استعمار کی جھولی میں گرنے کیلئے تیار پائے گئے۔ کفار نے اپنے حساب سے بے شک کمال کا زور لگایا، مگر جس کسی نے عقیدہ و عمل کی پختگی کے قلعے اسلام کی اول صدیوں کے اندر دیکھ رکھے ہوںوہ شہادت دے گا کہ یہ قلعے اب کسی واہمہ کی ہی تصویر پیش کر رہے تھے۔ اب یہ محض کھنڈر رہ گئے تھے؛ کہاں قلعے اور کہاں کھنڈر!!! یہ تھی اپنے یہاں ارجاءکی کار گزاری! پس یہ ارجاءہی تھا جس نے اسلامی وجود کا یہ لہلہاتا شجر جو بلندی میں آسمان سے باتیں کرتا تھا اور کوئی آدھی زمین پر چھتری کئے کھڑا تھا بلکہ اپنی یہ چھتری مسلسل پھیلا رہا تھا، کسی دیمک کی طرح اندر ہی اندر سے کھا کر کھوکھلا کر دیا۔ باہر سے آنے والی آندھیاں اپنی افتاد میں جس قدر بھی طوفانی ہوں، ان کو اصل شکر گزار تو اِس دیمک کا ہونا چاہیے تھا جو اِس درخت کے کسی باغبان کو بھی کم ہی کبھی نظر آئی ہو گی!
ایک قصہ تھا کہ آخر تمام ہوا!
یہ تمہید ہم کیوں بیان کر رہے ہیں۔۔۔۔؟ اس لئے کہ ایک قصہ ہے جو اَب شروع ہونے جا رہا ہے!!!
عالم اسلام کے اِس انحطاط کو پہنچ لینے کے بعد۔۔۔۔ اسلام کو ظاہر ہے کہ ایک بار پھر اٹھنا تھا۔ لازم تھا کہ جیسے جیسے اسلامی نشأۃ ثانیہ کی رو میں تیزی آتی، اسلامی تاریخ کی کچھ تاریخی جدلیات بھی پردۂ اَحداث پر نمایاں ہونے لگتیں!
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں فکرِ خوارج اور فکرِ ارجاءامت کا وقت برباد کرنے کیلئے آج پھر آمنے سامنے ہیں!!!
نہایت ضروری ہے کہ امت کے سنجیدہ طبقے اپنی اِس مبارک نشأۃ ثانیہ کو اِن دو منحرف فکروں کی کھینچا تانی کی نذر نہ ہونے دیں ۔قوم کے دردمند، امیدوں کے اِس چمن پر بہار سے پہلے ہی ایسی کوئی خزاں نہ آجانے دیں؛ جس کیلئے ضروری ہوگا، بلکہ جس کی واحد صورت یہ ہو گی، کہ اِس مسئلہ پر اصولِ اہل سنت کو پڑھا اور پڑھایا اور پھیلایا اور سمجھایا جائے؛ نہ تو اِس موضوع سے استغنا برت رکھا جائے اور نہ اغماض، کہ جس سے موقع پا کر یہ دونوں منحرف فکر پھر سے یہاں اپنی یلغار کریں جبکہ وہ اِس کی پوری کوشش کر رہے ہیں ۔ علاوہ ازیں، اِس موضوع پر اٹھنے والے سوالات اور نوجوانوں کے روز بروز نمایاں ہوتے جانے والے اشکالات سے جان چھڑانے کیلئے ایک سرسری انداز اختیار نہ کیا جائے: یہ ’سرسری انداز‘ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ اِس موضوع پر مختص مراجع و اہل علم کی جانب بکثرت رجوع نہ ہونے کے باعث، ’آسانی‘ کی خاطر، خوارج کا رد کرنے کیلئے مرجئہ کے اصول پر سہارا کر لیا جاتا ہے اور مرجئہ کا رد کرنے کیلئے خوارج کے اصول پر۔۔۔۔! حتیٰ کہ اِس پر ہی نظر زیادہ نہیں ہوتی کہ فکرِ ارجاءاور فکرِ خوارج کے خطوط کہاں کہاں سے الگ ہوتے ہیں۔
کم از کم، اپنے چارہ گروں کیلئے جائز نہ ہو گا کہ اِس بات کو وہ کسی ایک لمحہ کیلئے نظر انداز کریں کہ اِن دونوں (فکرِ خوارج اور فکرِ مرجئہ) کی کارگزاری کے باعث ہی ہمیں اپنی تاریخ کے اُس بد ترین انحطاط اور اُس عدیم النظیر شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا جس سے آج ہم اٹھ تک نہیں پا رہے۔ تاریخ اگر ہمارے سامنے ہے تو کبھی مت بھولیں کہ اِن دو مہربانوں کے ہاتھوں ہم قبر کے دھانے تک پہنچتے پہنچتے رہے ہیں؛ بلکہ کچھ عرصہ تو ہمیں مردہ تصور بھی کر لیا گیا تھا!
٭٭٭٭٭
جیسا کہ ہم عرض کر چکے، بے شک اول اول کی صدیاں فکرِ خوارج کی یلغار رہی تھی، اور بے شک فکرِ خوارج کی مزاحمت میں ہی فکرِ ارجاءنے اپنی پزیرائی کرائی تھی، مگر بعد کی صدیوں میں یہاں ارجاءہی کی اجارہ داری رہی۔ ”مرجئہ“ باقاعدہ ایک فرقہ اور ایک دعوت کے طور پر ضرور ایک خاص طبقہ تک ہی محدود رہا ہو گا، مگر ”ارجاء“ ایک فکر کے طور پر یہاں کے کثیر طبقوں کے اندر پزیرائی پاتا چلا گیا۔ یہاں کے بیشتر عوامی حلقے ”ارجاء“ اور ”مرجئہ“ کے نام تک سے واقف نہ ہوں گے مگر إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ اور َا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا اور مَن قَال لا اِلٰہ اِلا اللہ دخل الجنۃ ایسی شرعی نصوص کی عین مرجئہ والی تطبیق آپ اُن کے ہاں یقینا دیکھ سکتے تھے اور ابھی تک دیکھ سکتے ہیں۔ خود یہاں کے بہت سے علمی حلقے جوکہ اپنے عمومی اصول میں اہل سنت ہی تھے، ”مسائلِ ایمان“ میں اِرجاءسے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے اور رفتہ رفتہ فکرِ ارجاءکے ہاں پائے جانے والے کئی ایک مسلمات ہی ان کے مسلمات بن گئے تھے۔ ہماری بر صغیر کی علمی دنیا بھی __ اپنی عمومی صورتحال کے لحاظ سے__ اِسی کی ایک مثال ہے، جبکہ برصغیر کی علمی وفکری دنیا کے کچھ مسائل تو ویسے بھی پریشان کن رہے ہیں۔۔۔۔
پچھلی چند صدیوں کے اندر بر صغیر میں بے شک کچھ نہایت عظیم علمی کارنامے ہوئے ہیں اور بہت سے شرعی علوم میں ہمارے بر صغیر نے خوب بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا ہے، مگر دین کی اساس اور دین کی اصل روح کے تعین میں عجمی اثرات سے جان چھڑانا یہاں اتنا آسان نہیں رہا ہے۔ حقیقتِ توحید، مسائلِ ایمان اور مسائلِ اسماءو صفات وغیرہ ایسے ابواب میں سلف کے ہاں جو ایک گہرا مگر سادہ اور بے ساختہ اسلوب پایا گیا تھا اور کتاب و سنت اور اصحابِ رسول اللہ سے براہ راست ماخوذ تھا، اس کے اندر کئی ایک انداز کا خلل اپنے برصغیر کی علمی دنیا میں جا بجا نظر آتا ہے۔ اِس صورتحال سے نکل کر خالص سلفیت کی طرف بڑھنے کی کئی ایک سنجیدہ کوششیں بھی پچھلی تین چار صدیوں میں ہمارے سامنے ہیں اور بلا شبہ ایک بڑی پیش رفت کہی جانے کے لائق ہیں، اِس کے باوجود بہت سے فاصلے طے ہونا باقی تھے اور ابھی ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ یہاں کی بہت سی علمی شخصیات اور علمی حلقوں پر، جوکہ علم میں یقینا ایک عظیم مقام رکھتے ہیں، تصوف، ماتریدیہ و اشاعرہ اور ارجاءسے ماخوذ اثرات کی اچھی خاصی چھاپ پائی گئی ہے۔۔۔۔
اِس پر تفصیل کے ساتھ پھر کسی وقت بات کی جائے گی، مگر یہ ایک واقعہ ہے کہ ہمارا بر صغیر اُن خطوں میں سے نہیں جن میں اسلام کا پودا صحابہ کے اپنے ہاتھوں لگا؛ سندھ میں اسلام کی وہ رو جو صحابہ و تابعین کے ساتھ آئی اور جوکہ خالص ترین توحید تھی، وہ بہت دیر تک قائم نہ رہ پائی۔ ایک بڑی سطح پر برصغیر میں جو اسلام پھیلا اُس کا روٹ عموماً درۂ خیبر تھا اور اُس کا زمانہ سلاطینِ ہند و مابعد ادوار میں یہاں وارد ہونے والے علماءو فقہاءو مبلغین و مرشدین و صوفیاءکا ہے۔ حقائق بہر صورت حقائق ہیں؛ اسلام جیسا کیسا پھیلا ایک بڑی سطح پر یہاں اِنہی طبقوں کے ذریعے پھیلا، جس پر مسلم برصغیر کو اُن کا ممنون ضرور ہونا چاہیے، اور کسی خیر کو کمتر جاننا تو اسلامی خُلُق ہی نہیں، البتہ اِس میں شک نہیں کہ یہ اسلام کا وہ خالص اور صاف شفاف فہم نہ تھا جو منہجِ سلف کا خاصہ رہا ہے۔ اِس کا بہت کچھ اصولِ سنت پر ہی قائم تھا، جس کی وجہ سے آج کی برصغیر کی دنیا اپنے عمومی معنیٰ میں اہلسنت کا تاریخی تسلسل ضرور مانی جاتی ہے، مگر بہت کچھ اِس میں ایسا بھی تھا جو سلف کی بجائے اِدھر اُدھر سے لیا گیا تھا اور جوکہ یہاں کے علمی و فکری رجحانات میں مختلف صورتوں کے اندر اب بھی باقی ہے۔ (قبر پرستی اور عبادتِ اولیاءکی ابھی ہم بات نہیں کر رہے، جس کے شرکِ اکبر ہونے میں کوئی شک ہی نہیں اور جو کہ جہلاءکے ہاں بے حد وحساب پائی گئی) یہاں کے علمی وفکری رجحانات تک میں بہت سے عجمی اثرات بے روک ٹوک چلے آئے تھے: علاوہ دیگر اشیاءمانند تصوف و ماتریدی تاویلِ صفات، ”ارجاء“ کے کچھ اثرات بھی اسلامی سیلاب کی اُن لہروں کے دوش پر تیرتے ہوئے ہم تک پہنچے جو پانچویں صدی ہجری سے دسویں صدی ہجری تک وسط ایشیا اور ایران(8) سے برصغیر کا رخ کرتی رہی تھیں۔ اِس کا سب مواد بہرحال وہ نہیں تھا جو قرونِ ثلاثہ میں ”اسلام“ کے حوالے سے معروف تھا۔
عالم اسلام پر ادبار اور انحطاط نے اپنا ایک دور مکمل کیا اور جو کہ استعمار کو یہاں چڑھ آنے کیلئے بنیاد فراہم کرنے والا ایک معلوم واقعہ ہے، تو اُس وقت تک کی صورتحال یہی تھی جو اوپر بیان ہوئی۔ یہ ایک وسیع مضمون ہے، البتہ یہاں ہماری گفتگو فکرِ ارجاءکے آثار و باقیات تک ہی محدود رہے گی۔۔۔۔
چنانچہ یہاں کے بہت سے علمی و فکری حلقے بھی، اپنی جلالتِ علمی کے علی الرغم، فکرِ ارجاءسے مکمل طور پر سلامت نہ رہے تھے۔۔۔۔ تا آنکہ بیداریِ نو کا عمل شروع ہوا جہاں امت کو اُس کی عین پہلے والی بنیادوں پر از سر نو صف بند کرنے کا عظیم الشان چیلنج در پیش تھا اور آخری صدیوں کے کچھ بڑے بڑے ناموں کا لحاظ بڑی دیر تک ممکن نہ تھا! یہ ’تحریکوں‘ کے اٹھنے کا زمانہ تھا جس کے راستے کی ایک بہت بڑی رکاوٹ طبعی بات ہے کہ فکرِ ارجاءہی کو ہونا تھا۔ آپ یہ چیز دیکھے بغیر نہیں رہیں گے کہ عالم اسلام میں جہاں جہاں اسلام کا ایک زوردار تحریکی عمل برپا ہوا وہاں وہاں خاصے اعلیٰ سطحی علمی حلقوں کی جانب سے اُن عناصر پر ’خوارج‘ ہونے کا الزام لگا جو اس تحریکی اِحیائی عمل کے روحِ رواں تھے۔ چاہے یہ محمد بن عبد الوہابؒ ہوں، چاہے سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اور چاہے حسن البناؒ اور سید قطبؒ یا سفر الحوالی یا کوئی اور، ہر کسی کو حصہ بقدر جثہ ’مذہبِ خوارج‘ کے نشر و اِحیاءکا الزام ملا۔ آج بھی اگر آپ سید مودودیؒ کی ’خطبات‘ پڑھیں (اور حاکمیت کے حوالہ سے بھی سید مودودی کے کچھ مباحث، خصوصاً کچھ اعتراضات کے جوابات پڑھیں) تو آپ اندازہ کر لیں گے کہ اُس روح کو پیدا کرنے پر جو اسلامی اِحیاءکا لازمہ ہے، کس طرح ایک نرم و گداز شخصیت کے حامل شخص کو یہاں کے کچھ جلیل القدر علمی حلقوں کی جانب سے ’خارجیت‘ کا الزام مول لینا پڑا۔ظاہر ہے سید مودودیؒ اپنے دفاع میں اُن اصولِ اہل سنت کا حوالہ نہ دے سکے جو اِس وقت سفر الحوالی کے مدرسۂ فکر کی کوششوں سے اچھی خاصی حد تک دستیاب ہونے لگے ہیں، البتہ یہ واضح ہے کہ حقیقتِ دین کی اُس روح کو پالینے کے معاملہ میں جو ”ایمان“ کی تعریف میں اصولِ اہل سنت سے ملتی ہے، سید مودودیؒ کی فکر برصغیر کے اندر کمال کی ایک پیشرفت تھی۔ کئی ایک جہتوں سے اِس کا مکمل ہونا ابھی باقی تھا مگر یہ ایک درست سمت میں بڑی پیش قدمی یقینا تھی۔
یہ تذکرہ یہ واضح کرنے کیلئے ہوا کہ دورِ انحطاط کے کثیر باقیات صرف یہاں کے عوامی حلقوں ہی میں نہیں پائے گئے، یہاں کے کثیر علمی حلقے بھی اِن سے محفوظ نہیں رہے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ عالم اسلام پر آنے والا یہ زوال یہاں کے ’عوامی حلقوں‘ کا زوال نہیں تھا؛ ایسا ہوتا تو پھر رونا ہی کیا تھا۔ اصل میں تو یہ زوال یہاں کے علمی اور فکری حلقوں کا زوال تھا جسکو آپ سے آپ یہاں کے عوامی حلقوں میں بھی جھلکنا تھا؛ ”ارجاء“ کی جڑیں عوامی ہی نہیں علمی حلقوں میں بھی دانستہ یا نا دانستہ گہری چلی گئی تھیں اور کچھ بڑے بڑے نام بھی اِس سے محفوظ نہیں رہے تھے۔ یہ چیز جتنی بھی تلخ ایک حقیقت ہے، مگر اِسکو کہے بغیر چارہ نہیں اِلَّا یہ کہ یہاں مطلوب اِحیائی عمل سے ہی آدمی دستکش ہونے کا فیصلہ کر چکا ہو۔
پس یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ عالم اسلام کی از سر نو صف بندی کے عمل کو، جس کو آج ’تحریکی عمل‘ کا بھی نام دیا جاتا ہے، جو بڑی بڑی رکاوٹیں یہاں درپیش رہی ہیں بلکہ ایسی رکاوٹیں جو عالم اسلام کے اندر اِس کے پاؤں کی زنجیر ہیں، اُن میں سے ایک: یہاں بے حدو حساب پایا جانے والا اِرجائی فکر ہے۔ علاوہ ازیں، اِس کا خطرناک ہونا بھی اب کئی ایک جہتیں رکھتا ہے؛ قرنِ اول میں اِرجاءاگر فکرِ خوارج کے ردِ عمل کے طور پر سامنے آیا تھا، تو ہمارے اِس دور میں صورتحال یہ ہے کہ عالم اسلام کے اندر اِس بے حد و حساب پائے جانے والے فکرِ ارجاءسے زچ ہو کر ایک رد عمل کی صورت میں جذبۂ عمل سے سرشار نوجوان دھڑا دھڑ اب فکرِ خوارج کا رخ کرنے لگے ہیں۔ بلا شبہ یہ ایک خوفناک صورتحال ہے جو متقاضی ہے کہ یہاں ایسے لوگ سامنے آئیں جو اِرجاءکو ’خوارج‘ والی بنیاد پر نہیں بلکہ اصولِ اہلسنت کی بنیاد پر رد کریں اور باطل کے خلاف خود کھڑے ہو کر دکھائیں؛ کیونکہ ایک وسیع تر صورت میں عالم اسلام کے اندر اِس وقت اِرجاءہی کا فکر پایا جاتا ہے۔ جہاں تک خوارج کے فکر کا تعلق ہے، تو ایک تو تاحال وہ کچھ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں ہی پنپ رہا ہے (گو اُسکے پھیلنے کا خدشہ روز بروز بڑھ ضرور رہا ہے)۔ دوسرا، وہ عالم اسلام میں ہر طرف پھیلے ہوئے اِرجائی فکر کا ہی ایک اندھا اور منہ زور رد عمل ہے۔ ایسے میں اگر آپ اِرجائی فکر کا قرار واقعی رد کئے بغیر ہی، خصوصاً باطل سے مڈھ بھیڑ رکھے بغیر ہی، فکرِ خوارج کا رد کرنے چل پڑیں گے تو اندیشہ یہ ہے کہ آپ فکرِ خوارج کو کچھ اور ہی تقویت دے دیں، کیونکہ ایک چیز اگر اِرجاءکے رد عمل میں پھیلنے لگی ہے تو اِرجاءکو منوانے یا باقی رکھنے کا عمل اس رد عمل کو اور بھی ہوا دے گا۔ چنانچہ آج اگر آپ ’اِرجاء‘ کا رد کرتے ہوئے نظر نہیں آ رہے اور باطل کے خلاف شدت کے ساتھ سرگرمِ عمل نہیں تو ’خارجیت‘ کا رد اگر آپ اہل سنت والی دلیلوں سے بھی کریں تو وہ ’خارجیت‘ کو روکنے کی ایک ناکام تدبیر ہو گی، کجا یہ کہ آپ ’خارجیت‘ کا رد کرتے ہوئے بھی کئی ایک ’اِرجائی‘ تعبیرات کا استعمال کرتے ہوں (جوکہ اِس وقت عام ہے) اور ’اِرجاء‘ کے خلاف تو کوئی محاذ کھڑا کرتے ہوئے نظر ہی نہ آتے ہوں۔ اِس تدبیر سے خارجیت تو پھیلنے سے نہیں رکے گی البتہ وہ تاریخی ڈائلیکٹ جو ’ارجائی‘ اور ’خارجی‘ رجحانات کے مابین رہا اور جس نے بالآخر ہماری لٹیا ڈبوئی، اُس تباہ کن چیز کی آبیاری میں ضرور آپ ایک حصہ ڈال رہے ہوں گے۔
اِس صورتحال کو درست کرنے کا طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ مسلم معاشروں میں اِن دونوں خرابیوں کا ’حصہ بقدر جثہ‘ رد کیا جائے۔ علاوہ ازیں، اِن ہر دو کے رد و توبیخ کا یہ اصلاحی عمل ”اصولِ سنت“ پر بنا کرے۔ یہ ’قاعدہ‘ یہاں بہرحال درست نہ ہوگا کہ ایک برائی کو دوسری سے بھڑوایا جائے۔ اِس کا نتیجہ اپنی تاریخ میں ہم ایک بار دیکھ چکے ہیں اور دوسری بار دیکھنے کے متحمل نہیں۔
٭٭٭٭٭
واقعتا یہاں کوئی بھی نہیں کہتا کہ وہ خوارج کے اصول پر اعتماد کر رہا ہے یا مرجئہ کی بنیادوں کو زندہ کر رہا ہے۔ مسئلہ اِس سے کچھ زیادہ پیچیدہ ہے ، لہٰذا اِس بات سے ہرگز دھوکہ نہ کھانا چاہیے کہ کوئی اپنے اصول کو مرجئہ یا خوارج کے اصول نہیں مانتا۔۔۔۔!
مسئلہ یہ ہے کہ خوارج اور مرجئہ ہر دو کا مذہب بادیُ النظر میں بہت سادہ ہے۔ یوں سمجھئے دونوں مذہب کم علم لوگوں کیلئے بنے ہیں؛ لہٰذا کم علم لوگ جب اپنے علم پر سہارا کریں گے یا کچھ ایسے لوگوں کو ’عالم‘ سمجھتے ہوئے ان کے علم پر سہارا کریں گے جن کی اصولِ علم پر گرفت پوری نہیں خصوصا جن کی اَصولِ فِرَق (9) پر نظر گہری نہیں تو آپ سے آپ وہ یا ’ارجاء‘ کے اسٹیشن کا رخ کریں گے اور یا ’خوارج‘ کے ٹھکانے کا۔ یعنی مرجئہ یا خوارج کا مذہب آپ کو ’تلاش‘ نہیں کرنا پڑتا، کم علمی کی راہ میں یہ دو راہا آپ سے آپ آ جاتا ہے اور آپ اپنی ’بہترین صوابدید‘ سے کام لے کر ’دائیں‘ طرف چلے جانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں یا ’بائیں‘ طرف! ”سیدھا راستہ“ آپ کو صرف اور صرف علمائے اہل سنت کھول کر دے سکتے ہیں!!! جو شخص علم میں بہت گہرا نہیں گیا اور اسلامی عقیدہ کے حقائق اور مقاصد شریعت کا ایک جامع ادراک نہیں رکھتا، وہ اپنے خیال میں شریعت کے دلائل کی جتنی بھی چھان پھٹک کر چکا ہو، در حقیقت اُس کا استدلال ایک نہایت سرسری اور سطحی قسم کا استدلال ہو گا۔ ایسا آدمی ’دلائل‘ کا اپنے تئیں ’نہایت گہرا جائزہ‘ لینے کے بعد جس نتیجہ پر پہنچے گا زیادہ امکان یہی ہے کہ نا دانستہ وہ کسی ایک سطحی راستے پر ہی پیر دھرے گا، جو کہ __ مسائلِ ایمان میں __ مرجئہ کی راہ ہو سکتی ہے اور یا خوارج کی۔
اتنا ہی نہیں، اِس بات تک سے دھوکہ نہ کھانا چاہیے کہ کوئی شخص اِس باب میں ’اصول اہلسنت‘ کی مستند کتب سے استدلال کر رہا ہے اور اپنے ان استدلالات پر اصول اہلسنت ہی کی ان کتب سے بکثرت حوالے دے رہا ہے! سوال اصل میں یہ ہے کہ کس شخص کو اہل علم نے اِس قابل مانا ہے کہ وہ اپنے دور اور حالات پر اصول اہل سنت کا انطباق کرتے ہوئے معاملے کا ایک درست ترین نسبت تناسب نکالے؟ کس کو یہ ملکہ حاصل ہے کہ وہ اصولِ فِرَق کو نہایت گہرائی میں جا کر جانچ سکتا ہو اور اسلامی عقیدہ کے سب جوانب کو اکٹھا ایک ساتھ لے کر چل سکتا ہو؟
خوارج اور مرجئہ ہر دو کا مذہب بظاہر بہت ’دو ٹوک‘ اور ’ریاضیات‘ سے ملتا جلتا ہے، خصوصاً خوارج کا مذہب!’ریاضیات‘ میں آپ محنت کر لیں تو ’پورے نمبر‘ لے سکتے ہیں۔ ’سماجی علوم‘ کا معاملہ البتہ خاصا مختلف ہے جہاں ’خبر‘ ہی نہیں ’نظر‘ بھی درکار ہوتی ہے اور ’انسان‘ ایسی پیچیدہ چیز کو سمجھنے سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ اِس دِقت کے باعث بسا اوقات استاد آپ کو اِس شعبہ میں مہارت کا سرٹیفکیٹ نہیں دیتا۔ البتہ کسی وقت ایسا استاد ہی زیر عتاب آجاتا ہے اور شاگرد اُس کو ’فارغ‘ کر دینے کا فیصلہ کرتا ہے؛ وہ استاد پر اپنے اعتراضات کو اپنے جیسے کچھ طالبعلموں پر واقعتا ثابت بھی کر لیتا ہے اور اِس عمل سے اُس میں کچھ حوصلہ بھی آجاتا ہے! چنانچہ بہت سے نوجوانوں کو آپ ’افسوس‘ کرتے ہوئے پائیں گے ’فلاں عالم نے ایسی غلط بات بھلا کیسے کر دی‘؟! کیا شک ہے کہ ایک عالم بہک بھی سکتا ہے اور بڑی سے بڑی غلطی بھی کر سکتا ہے، مگر اُس کی غلطی نکالنے والے ”علماء“ تو ہوں!!!
معاملہ اصل میں یہ ہے کہ فکرِ خوارج میں __ مسائلِ ایمان پر __ سوچ کی ایک ہی جہت ہے۔ ایسا ہی معاملہ فکرِ ارجاءکا ہے۔ یہ ایک مسئلے کو متعدد اطراف سے دیکھ ہی نہیں سکتے۔ اِس لحاظ سے یہ دونوں منہج خاصے ’آسان‘ ہیں؛ جلد ’سمجھ‘ آ جاتے ہیں! البتہ اہل سنت کے ہاں مسئلے کی ایک ہی جہت نہیں ہوتی؛ ان کو سب جہتیں لے کر چلنا ہوتا ہے۔ اِس لحاظ سے بادیُ النظر لگتا ہے کہ اہلسنت ایک پیچیدہ مسلک رکھتے ہیں؛ جب بھی ایک جہت سے مسئلہ اِن کے سامنے لایا جائے، یہ اُس کو ایک اور جہت سے بھی دکھا سکتے ہیں، حتیٰ کہ یہ بیک وقت مسئلے کی کئی کئی جہتیں زیر بحث لا رہے ہوتے ہیں؛ ”توازن“ گو ایک نہایت اہم مبحث ہے، اور کوئی بھی یہاں آپ کو ”توازن“ کا انکاری نظر نہیں آئے گا، مگر آپ غور فرمائیں تو ”توازن“ کا مسئلہ بہت بعد میں آتا ہے؛ ”توازن“ کی تو نوبت ہی بعد میں آئے گی، پہلے تو مسئلہ یہ ہے کہ کیا آپ ایک مسئلہ کی سب کی سب علمی جہتیں دیکھ بھی سکتے ہیں یا نہیں؟ جو شخص مسئلہ کی بہت سی علمی جہتیں بیک وقت دیکھ پانے سے ہی قاصر ہو اُس کو ’توازن‘ قائم رکھنا بھلا کیا مشکل ہے؟! وہ تو ایک پل میں آپ کو ’توازن‘ قائم کر کے دکھا سکتا ہے بلکہ حیران بھی ہو گا کہ اِس اتنی سی بات کیلئے اب تک آپ پریشان ہو رہے تھے! ”توازن“ کے سوال پر سانس تو اُس شخص کی پھولے گی جس کو مسئلہ کی سب پیچیدگیاں معلوم ہوں اور اَدلہ و مُرَجِّحَات کا سب تعارض اُس کے سامنے ہو!
اِس لحاظ سے اہل سنت کا مذہب واقعتا اتنا سادہ نہیں۔ مسئلے کو ’آسان‘ اور ہر کسی کی ’پہنچ‘ میں رکھنے کیلئے اہل سنت اپنے اِس علمی منہج کی قربانی تو بہر حال نہیں کر سکتے، جس سے کہ اہل سنت کی باقاعدہ ایک شان وابستہ ہے۔ البتہ مسئلہ کو آسان کرنے کا طریقہ اہل سنت کے ہاں یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ عام لوگ اُن علمائے سنت سے وابستہ رہیں اور انہی کے پیچھے چلیں جو اِن مسائل میں اصولِ اہل سنت کا پورا استیعاب رکھتے ہوں۔
البتہ اِس سے مفر نہیں کہ اِن مسائل پر جو شخص لوگوں کو راہنمائی دے رہا ہو وہ نہ صرف اصولِ عقیدہ کے سب جوانب پر بیک وقت دسترس رکھتا ہو بلکہ وہ سب خطرناک ترین مقامات بھی پوری طرح اُس کی نگاہ میں ہوں جہاں پل پل پر باطل فرقوں کے راستے آپس میں الگ ہوتے اور ایک دوسرے کو قطع کرتے ہیں۔ مزید برآں، اُس کی اِس اہلیت کی شہادت ’عوام‘ نہیں بلکہ ”اہل علم“ دیتے ہوں۔
٭٭٭٭٭
اداریہ میں اس سے بعد کے اجزاء
اصولِ سنت کے متخصصین اِس دور میں بہت زیادہ نہیں
ج
مسئلہ ’حکمرانوں‘ سے کہیں بڑا ہے!
د
حکم بغیر ما اَنزل اللہ اگر ’کفر‘ ہی نہیں تو یہ نظام بھی پھر ’طاغوتی‘ کیسے؟؟
ھ
ہر کوئی اصولِ سنت و سلف ہی کی بات کرتا ہے!
و
اداریہ کی ابتدا میں مذکور مراسلہ کے حوالہ سے۔۔۔۔
ز
اداریہ میں اس سے پہلے کے اجزاء
کیا مرجئہ طے کریں گے کہ تکفیری کون ہیں۔ حصہ دوم
استعمار۔۔ ’لباسِ مجاز‘ میں!
الف
(1) اِن دونوں باتوں، یعنی کسی کے جہل یا تاویل کو دور کر دینے کو اہل سنت کی اصطلاح میں ”اقامتِ حجت“ کہا جاتا ہے۔ کسی شخص پر حکم لگانے سے پہلے اہل سنت کے یہاں دیکھا جاتا ہے آیا اُس شخص پر ”اِقامتِ حجت“ ہوئی یا نہیں۔ اقامتِ حجت کے بغیر اُس شخص پر وہ حکم لگانا روا نہیں۔ یعنی کسی قول یا فعل کا کفر اور شرک ہونا ثابت ہو بھی جائے اور کسی شخص کا ایسے شرکیہ قول یا فعل میں ملوث ہونا پایۂ ثبوت کو بھی پہنچ جائے، پھر بھی اہل سنت اُس شرکیہ قول کے قائل یا اُس شرکیہ فعل کے فاعل پر حکم نہیں لگائیں گے جب تک اُس پر شرعی حجت پہلے قائم نہ کر لیں، یعنی اُس کی لاعلمی ختم نہ کر لیں اور اگر وہ کوئی تاویل رکھتا تھا اُس تاویل کا بطلان اُس پر واضح نہ کر دیں۔ اِس سے بڑھ کر انصاف کی بات آخر کیا ہوسکتی ہے؟
(2) (التوبۃ: 39) ”اگر تم (جہاد کیلئے) نہ نکلے تو ضرور وہ تمہیں عذاب دے گا، ایک درد ناک عذاب، اور تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا، اور تم اُس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے“
(3) (التوبۃ: 99) ”یقینا اللہ بخشنے والا ہے، مہربان“
(4) (الزمر: 53) ”اللہ کی رحمت سے نا امیدی اختیار نہ کرو، بے شک اللہ سارے کے سارے ہی گناہ معاف کر دیتا ہے“
(5) (سنن الترمذی، باب: ما جاءفیمن یموت وھو یشہد اَن لا اِلٰہ اِلا اللہ) ”جس نے کہہ دیا لا الٰہ اِلا اللہ، وہ جنت میں داخل ہوا“
(6) ظاہر ہے ان غلط مفہومات کے ساتھ جنہیں فکرِ ارجاءپیش کر رہا تھا، ورنہ یہ بشارتیں تو حق ہیں۔
معاملہ یہ رہا ہے کہ شرعی نصوص میں جو کوئی وعیدیں تھیں خوارج کا زور ان پر رہا اور وہ بشارتوں والی نصوص کو گول کر جاتے رہے۔ دوسری جانب، شرعی نصوص میں جو کوئی بشارتیں تھیں مرجئہ کے ہاتھ وہ چڑھ گئیں اور یہ وعیدوں والی آیات و احادیث کو سامنے لانے کے روادار نہ تھے۔ یہ صرف اہل سنت تھے جو نہ صرف دونوں قسم کی نصوص بیان کرتے تھے بلکہ جو اِن نصوص کا صحیح مطلب اور سیاق بھی بتا سکتے تھے۔
(7) گو پوری کہانی یہ ہے کہ فکرِ ارجاءایک تاریخی واقعہ کے طور پر عالم اسلام میں فکرِ خوارج کا رد عمل بن کر آیا تھا۔ فکرِ ارجاءویسے سامنے آتا تو شاید ’بے عملی‘ کی دعوت گنا جاتا، مگر جب یہ فکرِ خوارج کے خلاف ایک زور دار ردِعمل کے طور پر سامنے آیا، جبکہ خوارج کی بدعت ایک بہت بڑی بدعت تھی جس کی صحابہ کی جماعت سے دست بدست جنگ ہو چکی تھی اور جس کے ہاتھ پر ایک (حق یہ ہے کہ دو) خلیفۂ راشد کا خون تھا۔۔۔۔ تو اِس کے رد عمل کے طور پر سامنے آنے والا فکرِ ارجاء’بے عملی‘ کی دعوت کے طور پر نہیں بلکہ ’ردِ بدعت‘ اور ’دفاعِ سنت‘ کے طور پر دیکھا گیا! یوں اول اول اِس کی پزیرائی ’اتباعِ سنت‘ کے جذبہ کے ساتھ کرائی گئی۔ بعد ازاں، امت میں انحطاط آنے کے ساتھ ساتھ، اِس کی مانگ آپ سے آپ بڑھتی گئی!
اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو خوارج کی بدعت اِس امت کے وجود پر ہونے والا ایک نہایت کاری وار تھا؛ پہلے امت کے جذبۂ عمل کو منتشر کرنے اور پٹڑی سے سرکانے کے معاملہ میں اور بعد ازاں مرجئہ کے رد عمل کو وجود دے کر امت کے جذبۂ عمل کو ختم کر دینے کے معاملہ میں۔یہی وجہ ہے کہ علمائے سنت فکرِاِرجاءکے خطرہ سے بھی خوب خبردار کرتے ہیں، مگر جب کسی خطہ میں فکرِ خوارج کو انگڑائی لیتا دیکھیں تو کہیں زیادہ خوف محسوس کرتے ہیں؛ ایک تو اِس لئے کہ اِس کے میدان میں آنے کے ساتھ قتل و خونریزی کا امکان نہایت قوی ہوتا ہے جبکہ اللہ کو قتل و خونریزی ہرگز پسند نہیں، دوسرا اس لئے کہ اپنے رد عمل میں فکرِ خوارج کچھ ایسے افکار کو جنم دے گا جن میں نہ صرف لوگ شدت اور سنگ دلی سے بھاگ کر اپنے لئے پناہ دیکھیں گے بلکہ دین سے بھاگنے والے بھی ان کے اندر ایک اوٹ پائیں گے۔
کاش کوئی جانے بدعت اعتقادات و افکار نے کس طرح اِس امت کا وجود کھوکھلا کیا ہے! کاش کوئی جانے اصولِ سنت کا علم ہمارے نوجوانوں کی کتنی بڑی ضرورت ہے۔
(8) ایران کی بابت یہ تصور درست نہیں کہ اسلامی تاریخ کا تمام تر عرصہ یہ رافضیت ہی کا گڑھ رہا ہے۔ اِس خطہ میں رافضیت اور باطنیت شروع سے پلتی ضرور رہی ہے، اور ضرور آلِ بویہ سمیت کئی رافضی فتنوں کا منبع یہی خطہ رہا ہے، مگر پچھلی تمام تر صدیاں ایران ہمیشہ سنی اکثریت کا ملک رہا ہے۔ یہاں کی اکثریت کا رافضی ہو جانے اور سنیوں کو مار مار کر دوسرے ملکوں اور سرحدی علاقوں کی جانب بھگا دیا جانے کا واقعہ یہاں صفوی دولت کے قائم ہو جانے کے بعد ہوا، جوکہ دسویں صدی ہجری کا واقعہ ہے۔
(9) اُصولِِ فِرَق:فِرَق جمع ہے ’فرقہ‘ کی۔ اور اُصول ’اصل‘ کی جمع۔ اُصولِ فِرَق علم کا ایک شعبہ ہے جو اسلامی تاریخ میں پائے جانے والے فرقوں کی پیدائش اور ان کی فکری بنیادوں کو جاننے، اور ان میں فرع در فرع جو جو پیشرفتیں ہوئیں اور کس کس ’مسالے‘ سے کیا کیا چیز بنتی رہی، نیز اصولِ سنت کے ساتھ کونسا فرقہ کہاں کہاں ملتا ہے اور کہاں کہاں سے اُس کی تاریں الگ ہوتی ہیں، اِن سب باتوں سے بحث کرتا ہے۔
جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ کے شعبہ عقیدہ میں بطور خاص اور کئی ایک سعودی جامعات میں بالعموم اِس شعبہ سے متعلقہ علوم پڑھانے کا ایک معیاری انتظام پایا جاتا ہے۔