قارئین کے مراسلے
حمید الدین فراہی اور امین احسن اصلاحی اگر آج زندہ ہوتے۔۔!
حذیفہ عبد الرحمن - کراچی
موجودہ دور میں سائنسی تحقیقات جس برق رفتاری سے منظر عام پر آرہی ہیں، وہیں ’دینی تحقیق‘ کا فنامنا بھی تیزی سے ابھرنے لگا ہے۔ البتہ مذہب کے نام پر کی جانے والی یہ ”تحقیقات“ دراصل محققین کے ’تفردات‘ کا پیش خیمہ بنتی رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہماری اس داد کے مستحق وہ ’مخصوص‘ طبقے ہیں جو قدامت پسندی کے ’مہلک‘ جراثیم سے امت مسلمہ کو صحت یاب کرنے کے لئے ’مسیحائی‘ کا کام دے رہے ہیں۔
گو کہ اس طبقہ کے ’علمی شہ پارے‘ جا بجا ان کی تحریرا ت میں بکھرے دکھائی دیتے ہیں مگر اس ضمن میں منصہ شہود پر آنے والی ’نئی دریافت‘ کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ حالیہ تحقیق کا ’بلا تکلف ‘ خلاصہ یہ ہے کہ ” رسالتِ محمدﷺ پر ایمان اخروی نجات و سعادت کے لئے شرط نہیں ہے“۔ جیو ٹی وی پر نشر ہونے والے پروگرام میں جاوید احمد غامدی صاحب اپنا یہ موقف پوری قوت سے پیش کر چکے ہیں۔ کتاب ’استفہام‘ صفحہ 87 (مؤلفہ طالب محسن) پربھی سورہ مائدہ کی ایک آیت کے حوالے سے کسی سائل کے جواب میں اسی بات کو کچھ ’گول مول‘ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
ویسے تو مولانا مودودی نے تفہیمات جزءاول میں ’قرآن پر سب سے بڑا بہتان‘ کے عنوان سے (ص218 تا237) اس مسئلہ پر سیر حاصل بحث کی ہے بلکہ یوں کہئے کہ ایضاحِ مسئلہ کا حق ادا کر دیا ہے۔ مگر سید مودودی کا ذکر جانے دیجئے، خود غامدی صاحب کے ’استاذ امام‘ مولانا امین احسن اصلاحی نے سورہ بقرہ آیت 62 کے تحت اپنی تفسیر کے تقریباً چھ صفحات پر اس ’تحقیق جدید‘ کے بخئے ادھیڑ کر رکھ دئیے ہیں ۔ (تدبر قرآن۔ جلد اول۔ ص 231 تا236 )
اصلاحی صاحب کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں۔
”اس زمانے کے بعض متکلمین اور منکرین سنت اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ جو اہل کتاب اپنے اپنے صحیفوں کی تعلیمات پر نیک نیتی کے ساتھ عمل کر رہے ہیں، قرآن مجید ان کی نجات کے لئے رسول اﷲﷺ پر ایمان لانا ضروری نہیں ٹھہراتا۔ ان کے خیال میں ایسے اہل کتاب کی نجات کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے اپنے صحیفوں اور نبیوں کی تعلیم پر نیک نیتی کے ساتھ عمل کریں۔ ان لوگوں نے اپنے اس خیال کی تائید میں جن چیزوں سے استدلال کیا ہے ان میں بقرہ کی یہ آیت بھی شامل ہے، اس وجہ سے ضروری ہے کہ ہم اس آیت کا سیاق و سباق اچھی طرح واضح کر دیں تاکہ جو لوگ قصداً غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوئے ان کی غلط فہمی دور ہو جائے“۔ (ص 231)
صلاحی صاحب نے سارا زور خصوصی طور سے اہل کتاب کے حوالے سے صرف کیا ہے مگر یہاں تو ’ہندوؤں ‘ تک کے لئے ’گنجائش ‘ ڈھونڈی جا رہی ہے اور راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔!!!
مولانا اصلاحی اگر آج زندہ ہوتے اور ان کے علم میں ہوتا کہ جس گمراہ کن عقیدے کی بیخ کنی کے لئے وہ کوشاں ہیں اور اس سعی پر اﷲ سے اجر کے امید وار ہیں، ایسے متکلمین تو خود ان کے اپنے ’فیض یافتگان ِ تربیت‘میں سے ہی سر اٹھا رہے ہیں، تو نہ صرف یہ کہ وہ اپنی قسمت پر نوحہ کناں ہوتے بلکہ شاید زبان حال سے کہہ رہے ہوتے :
غالب! ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کئے ہوئے
اصلاحی صاحب کی ’تدبر‘ ہو یا حمید الدین فراہی صاحب کی ’مجموعہ تفاسیر‘ ، اس قسم کی ’دریافت‘ کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں۔ اگر کوئی صاحب دبستانِ شبلی کے ’ائمہ‘ میں سے کوئی ایک حوالہ ہی پیش کر سکیں تو ہمارے علم میں اضافہ ہوگا۔ ’سبیل المومنین‘ سے انحراف ایسی ہی گوہر افشانیوں کا باعث ہوا کرتا ہے۔!!
امت کے عظیم الشان تاریخی تسلسل سے مستغنی ہو کر جب نت نئی تحقیقات(بزعم خود) شروع ہو جائیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ بلا تمیز ’اصول ‘ و ’فروع‘ سب پر طبع آزمائی شروع کر دی جائے توپھر اس طرح کی دور ازکار تاویلات کے لئے کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔
’سنتوں‘ کی فہرست میں ’کمی بیشی‘ کے ساتھ ساتھ ’ایمانیات‘ کی فہرست میں ’کمی‘ بھی شاید کسی ’ارتقاء‘ ہی کا نتیجہ ہو!!!
حذیفہ عبد الرحمن - کراچی